داد بیدا د
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
ہر سال کی طرح اس سال بھی وفاقی بجٹ میں سرکاری شعبے کے ترقیا تی پروگرام کے لئے بھاری رقوم مختص کی گئی ہیں پہلے کی طرح صوبائی بجٹ میں بھی ترقیا تی فنڈ رکھا جائے گا اس فنڈ کو مختلف محکموں کے الگ الگ شعبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ہر تین ماہ بعد اس کے خرچ کا حساب مانگا جاتا ہے سال کی چار سہ ماہیوں میں اس کو خرچ کرکے ختم کیا جاتا ہے
عام تجربہ اور مشا ہدہ یہ ہے کہ سکول کے ہیڈ ماسٹر کو اگر ایک کلا س روم کی تعمیر کے لئے صرف 8لاکھ روپے ملتے ہیں تو کلاس روم ایک سال میں تعمیر ہو جاتا ہے اس کے مقابلے میں کلاس روم کی تعمیر کے لئے اگر دو کروڑ روپے کسی تعمیراتی محکمے کو دیے جاتے ہیں تو اس کی تعمیر پر چار سال لگتے ہیں کام بھی دو پیسے کا نہیں ہوتا اس طرح ایک نہر یا آبنوشی سکیم کے لئے کسی تعمیراتی محکمے کو اگر 10کروڑ کا فنڈ دے دیا جائے تو منصوبہ 8سالوں میں مکمل نہیں ہوتا مکمل ہوجائے تو دیکھنے میں آتا ہے کہ تعمیراتی کام کا معیار ناقص ہے
اگلے سال اس کی مرمت کے لئے فنڈ کا مطالبہ کیا جاتا ہے اس کے مقابلے میں پرا جیکٹ کمیٹی، پراجیکٹ لیڈر یا مقامی استفادہ کند گان کی تنظیم کو اسی کام کے لئے اگر 20لا کھ روپے کا پراجیکٹ دیا جائے تو وہی کام ایک سال میں اعلیٰ ترین معیار کے ساتھ مکمل ہوتا ہے وجہ یہ ہے کہ سکول کا ہیڈ ماسٹر کلا س روم کو اپنا گھر سمجھتا ہے قومی خزا نے سے آنے والے فنڈ کو امانت سمجھتا ہے گاوں کے لوگوں کی پراجیکٹ کمیٹی یاتنظیم آپ پاشی یا آب نوشی سکیم کو گاوں کی ملکیت اورعوام کی ملکیت سمجھتی ہے اس لئے تھوڑا سافنڈ سوچ سمجھ کر استعمال کر تی ہے اور ان کا ہر کام معیا ری بھی ہو تا ہے 1960ء کے عشرے میں محکمہ بلدیات کے قانون میں پرا جیکٹ کمیٹی، دیہی تنظیم اور امدا د باہمی کے تحت سرکاری فنڈ کا استعمال ہو تا تھا
یہ سلسلہ 2008تک جا ری تھا 2008 میں اس کو ختم کیا گیا عالمی عطیہ دہند گا ن یا ڈونرز پاکستان کو جو امداد یا گرانٹ دیتے ہیں اس کے لئے وزارت خزا نہ کو پا بند کر تے ہیں کہ یہ رقم ہر حال میں دیہی تنظیموں اور پرا جیکٹ کمیٹیوں کے ذریعے مختلف سکیموں پر خر چ کی جا ئیگی انگریزی میں اس اصول کو اونر شپ یعنی تصور ملکیت کہا جا تا ہے تعمیرا تی محکموں میں اس اصول کا شدید ترین فقدان ہے 2023اور 2024کا بجٹ ایسے وقت پر پیش کیا گیا ہے جب وطن عزیز تاریخ کے بد ترین معا شی بحران کا شکار ہے ملک کے اوپر دیوا لیہ ہو نے کی تلوار لٹک رہی ہے اس لئے مو جودہ بجٹ کو خر چ کر تے وقت پھو نک پھو نک کر قدم رکھنا چا ہئیے اور وقت کی نزا کت کا تقا ضا یہ ہے کہ روا یتی طریقے پر ٹینڈ ر کے ذریعے کنٹریکٹر کو کام دینے کے بجا ئے دیہی تنظیموں اور پرا جیکٹ کمیٹیوں کو کا م دیا جا ئے ہزارہ ،سوات، دیر، کوہستان، چترال اور گلگت بلتستان میں دیہی تنظیموں اور پرا جیکٹ کمیٹیوں نے گذشتہ 40سالوں میں ہزاروں کا میاب منصو بوں پر کام کیا ہے ان میں سڑک، پل، آب پاشی، آبنوشی کی سکیموں کے علا وہ جدید ترین بجلی گھر بھی شا مل ہیں واپڈا، پیسکو اور کراچی الیکٹر ک سپلا ئی کمپنی کے پاس اب تک پری پیڈ بلنگ سسٹم نہیں ہے
چترال کی دیہی تنظیموں نے 600کلو واٹ اور 800کلواٹ کے بجلی گھروں کے صا رفین کو کارڈ کے ذریعے بیلنس ڈال کر بجلی حا صل کر نے کا سسٹم دیا ہے رات دس بجے گھر کی بجلی چلی گئی تو قریبی دکا ن سے بیلینس ڈلوا کر کارڈ کو فعال کریں دو منٹ کے اندر بجلی آجا ئیگی اگر متبا دل سسٹم متعا رف نہیں کرا یا گیا تو قومی خزا نہ اس سال بھی عوامی مفاد میں خرچ نہیں ہو گا مو جو دہ سسٹم میں 5ارب روپے کی سکیم کے لئے 6دفتر وں میں کمیشن کا ٹا جاتا ہے تو سکیم پر خر چ کر نے کے لئے ایک ارب روپیہ بھی نہیں بچتا اس لئے مو جو دہ حکومت اور مقتدر اداروں کو متبادل طریقہ کار اختیار کرنا چا ہیئے۔