مختلف مقامات کی لوک تاریخ (قسط دوم)
وادی مستوج
وادی یارخون کی حد بندی مستوج کے مقام تک ہے۔ یہاں سے آگے وادی ڑاسپور اس کے ساتھ مل جاتی ہے اور دریائے مستوج کے ساتھ گنکورینی کے مقام تک یہ وادی مستوج کی شکل اختیار کرتی ہے۔ البتہ تاریخی اعتبار سے ریشن تک اس وادی کو بیار اور اس سے آگے کو کوہ کا نام بھی دیا جارہا ہے۔ تورکھو اور موڑکھو کی وادیاں اس وادی کی معاون وادیاں ہیں۔
مستوج: اس وادی میں سب سے پہلے مستوج کا قصبہ آتا ہے جو دریائے ڑاسپور سے چنار گاؤں تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ تمام چترال کے قدیم ترین دیہات میں سے ایک ہے۔ چینی ریکارڈ میں اس کا نام شانگی یا شوانگ می آیا ہے۔ قدرتی طورپر اس کی محل وقوع اس قدر ایڈیل ہے کہ یہ تین وادیوں کے سنگم پر واقع ہے۔ یہاں سے وادی ڑاسپور کے ذریعے کشمیر اور برصغیر کی طر ف راستہ نکلتا ہے اور وادی یارخون کے ذریعے وسطی ایشیاء اور چین اور وادی مستوج اور چترال کے ذریعے افغانستان اور شمال مغربی برصغیر کے لئے گذرگاہ نکلتا ہے۔
اسطرح تاریخ میں یہ نہایت اہمیت کا حامل رہا۔ سرآرل سٹائین 1906ء میں یہاں سے گذرا تھا اور چینی ترکستان تک مطالعاتی دورہ کیا تھا۔ وہ چینی رکارڈوں کے حوالے سے ان مقامات کے ناموں کے بارے لکھتے ہیں کہ ”شانگ می ہیون سانگ کے مطابق واخان سے جنوب میں واقع ہے۔ اونچے پہاڑوں پر سے گذر کر شانگ می کی سلطنت میں پہنچ جاتے ہیں یہ پہاڑوں اور وادیوں پر مشتمل علاقہ ہے اور یہاں مختلف اونچائی کے پہاڑ واقع ہیں۔ پیداوار میں خاص طورپردالیں اور گندم وافر مقدار میں پیدا ہوتے ہیں۔ انگور بھی یہاں بہتات میں ملتے ہیں۔ اس علاقے میں ورقی پڑتال بھی ملتے ہیں جسے لوگ کدال سے کھود کے نکالتے ہیں۔ یہاں کی اب وہواسردہے۔ لوگ زندہ دل،عجلت پسند اور راست باز ہیں۔ ان کے رسم ورواج میں کسی قسم کی ظاہرداری یاتکلف کا شائیبہ نہیں۔ یہ لوگ زیاد ہ تراونی لباس پہنتے ہیں۔ ان کا بادشاہ ساکیہ خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ گوتم بدھ کے قانون کااحترام کرتا ہے۔ اسکی رعایا اسکی پیروی کرتی ہے اور تمام اس پاک عقیدے سے روحانی طاقت حاصل کرتے ہیں یہاں پردو خانقاہیں بھی ہیں جن میں چھوٹی تعداد میں راہب رہتے ہیں“۔
سٹائین اس تذکرے سے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ یہ علاقہ مستوج کا ہی علاقہ ہے جسکے ساتھ تورکھو اور موڑکھو کے علاقے بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ مزیدوہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ شانگی یاشوانگ می کی سلطنت ان پانج مملکتوں میں سے ایک تھی جو یووے چیہہ(Yueh-Chih)امراء کے ماتحت تھیں اور یہ تمام تخارستان (بدخشان) کے ماتحت تھیں۔سٹائین نے انہیں حوالوں سے کھووی(Chi-Wei)کا حوالہ بھی دیا ہے اور بتاتے ہیں اس سے کھو(Kho)علاقہ لیا جاسکتا ہے جو مستوج علاقے سے نیچے واقع ہے اور قشقار بالا کے مختلف وادیوں سے منسلک ہے اور کھوار زبان جو چترال کے لوگوں کی ایک زبان ہے بھی اسی سے نکلا ہے۔
بہرحال ان دو حروف”کھو“ اور وی“(Chu-Wei)دوسری چینی تحریروں کی طرح ان علاقوں کے پرانے نام ہوں گے جو بعد میں کھو بن گئے ہو“۔ مستوج قصبے کے اہم قبیلے زوندرے، کٹورے، رضاخیل، سیدان، یاغشے، زیادینے، غرزک، شامے، امیر بیگے، اچھنجے، وخک، شریفے، سنگارے وغیرہ ہیں۔ ان میں سے یاغشے، یارکند سے رئیس دور میں آئے تھے۔
وخک (وخان سے)غرزک(غذرسے) حال کے زمانوں میں آئے۔ سنگارے اور شریفے بدخشان سے کسی زمانے میں آئے تھے۔ سیدان اور زوندرے سنوغر سے یہاں اور دوسرے مقامات میں پھیلے۔ ان کاکچھ تفصیلی ذکر بعد میں آئے گا۔ شمال سے آئے ہوئے مستوج میں پہلی دفعہ ترچ میرکی خوبصورت چوٹی نظر آتی ہے۔ ترچ میر کی صحیح سپلنگTERICH MERہے۔ غلطی سے انگریزوں نےTIRICH MIRسمجھا اور لکھا اور اب سب ان کی پیروی کرتے ہیں۔ لفظMERیاMARکا لاحقہ بعض دوسرے پہاڑوں یا چوٹیوں کے ساتھ بھی لگاہوا ہے۔ مثلاًدیامیر۔(DIAMAR)۔ ڈاکٹر اسماعیل ولی کے مطابق میرMERیا(MAR)لفظ پہاڑکے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس لحاظ تریچ میر ترچ علاقے والا پہاڑ ہوسکتا ہے۔ یہاں ترچ کے وجہ تسمیہ کے چکر میں نہیں پڑتے ورنہ معاملہ پیچدہ ہوجائے گا۔
اسماعیل ولی صاحب نے پامیر کابھی ذکر کیا ہے اور وجہ تسمیہ پائے میربتایا جاتاہے جس سے کنفیوژن ہوگیا۔ بہتر ہوتا اسکو سنسکرت ہی رہنے دیا جاتاتواسکا مطلب پہاڑوں کا پاؤں بن جاتا۔ جغرافیہ دانوں کے مطابق ہندوکش، ھمالیہ، قراقرم طیان شان وغیرہ پہاڑ پامیر سے نکلتے ہیں اور مختلف اطراف میں پھیل جاتے ہیں۔ ڈکشنری میں پا کے ایک معنی بنیاد بھی لکھی ہے۔ اسلئے پامیر کا ترجمہ پہاڑوں کی بنیادیں بن جاتا ہے جوکہ موذون لگتا ہے۔ یاد رہے پامیر(Pamir)نہیں بلکہPAMERہے۔ جغرافیہ دان اسکوپامیر ناٹ(Knot) یاگرہ بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ مقام مختلف اطراف میں پھیلنے والے پہاڑوں کی یہاں گرہ(Knot)ہے۔
سرغوز
مستوج قصبے کے جنوب میں دریائے ڑاسپور منحنی شکل میں گھوم کے دریائے مستوج میں شامل ہوجاتا ہے۔اسی سنگم پر سرغوز گاؤں آباد ہے۔تمام چترال میں یہ ان چنددیہات میں سے ہے جہاں اپنی کوئی ندی نہیں۔اور یہ دریاکے پانی سے نہر کے ذریعے سیراب ہوتے ہیں۔غوزیا غوزی فارسی لفظ ہے۔جسکے معنی منحنی شکل کے ہے۔چونکہ یہ مخفی مقام پر ہے۔اسلئے لگتا ہے۔اسی مناسبت سے یہ نام پڑگیا ہوگا۔میرکا لاحقہ اسلئے لگایا ہوگا۔اسی وادی میں آگے چل کے دومقامات ایسے ہیں جہاں غوزی ناموں سے واسطہ پڑتا ہے۔مثلاًکوغذی اور برغوزی۔یہ مقام چونکہ پہلے آتا ہے۔اسلئے اس کا نام سرغوز رکھا گیا ہوگا۔یعنی پہلا غوز(یاغوزی)فارسی زبان سے ماخوذاورجگہوں کے نام بھی موجود ہیں اسلئے یہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔
یہاں پرآباد قبلیوں کے نام سیدان،بوشے،داشمنے،زوندرے زیادئیے،یاغشے،باسوٹے،قاضئے، بہرامے اور مراتے ہیں۔جوگردونواح کے دیہات سے یہاں آکر بس گئے ہیں۔
نِسُر۔۔۔سرغوز سے آگے نِسُر کامقام آتا ہے۔ایک انگریز مصنف تھامسن نے نِسُر کوایک یونانی نام نسہ سے نسبت کرنے کی کوشش کی ہے اور بتایا ہے کہ سکندر اعظم کی فوجیں اس مقام تک آئی تھیں۔وہ یہاں سے پہاڑوں کو عبور کرکے ہندوستان جانا چاہتے تھے لیکن یہاں حالات کو مخدوش دیکھکر واپسی کا ارادہ کیا۔نسُر گول1895ء میں انگریزوں کے خلاف جنگ میں بھی اہم میدان جنگ رہاتھا۔
سونوغور یا سنوغر۔۔۔سنوغور تمام چترال میں ایک اہم خوبصورت گاؤں کی حیثیت سے مشہور ومعروف ہے۔یہ قدیم ترین دیہات میں سے ایک ہے۔یہاں نوغور غیرڈوک یاٹیلے پرایک پرانے قلعے کے نشانات باقی ہیں۔جہاں مٹی کے برتنوں کے بکھرے ٹکڑے اب بھی ملتے ہیں۔سٹائین نے ان کو دیکھکرکہا تھا کہ مٹی کے برتنوں کے یہ ٹکڑے موجودہ زمانے کے برتنوں سے بدرجہا بہتر کوالٹی کے معلوم ہوتے ہیں۔اس نے جوقلیل مقدار میں جوآثار دیکھے تھے۔ان میں دھات کے نیزے کے پھالے اور دسرے اقسام کے اسلحے کے نمونے شامل تھے۔اور ان کی یہ تاثر بناتھا کہ مقام بہت پرانے زمانے سے آباد ہے۔(اس ٹیلے کی ابھی تک صحیح معنوں میں کھدائی نہیں ہوئی ہے۔کھدائی کے بعد کافی اہم معلومات سامنے آسکتے ہیں۔)سونوغور (یاسنوغر)کی وجہ تسمیہ کے بارے میں ڈاکٹر اسماعیل ولی کا خیال ہے کہ یہ سورنوغور ہوگا۔ان سے میں اتفاق کرکے اسمیں یہ اضافہ کروں گا کہ ممکن ہے اس زمانے میں یہ نوغور (یاقلعہ) اس علاقے میں موجود دوسرے قلعوں کی بہ نسبت زیادہ اہم ہوگا۔اسلئے اس کا نام سورنوغور یعنی قلعوں میں اونچی حیثیت والا قلعہ مشہور ہوگا۔سنوغر اپنے چنار کے درختوں اورخوبصورت شاف شفاف چشموں کے لئے بہت مشہور ہے۔پس منظر میں پہاڑ کے اوپر شایوز یعنی گلیشیر کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔جوکسی زمانے میں زیادہ وسیع ہوگا۔لیکن اب سکڑ کے چھوٹا رہ گیا ہے۔(یادرہے لوگ گلیشیر اور ایولانچ میں فرق نہیں کرتے۔گلیشیر شایوز کوکہتے ہیں۔جسے بننے میں ہزاروں سال لگتے ہیں۔اور ایوالانچ ریشٹ کو کہتے ہیں جوتازہ برف کاسیل ہوتا ہے)۔
سنوغر سے متعلق ایک رومانوی شاعرکی رومانوی گیت بھی مشہورہے۔نیز یہاں کے ایک کلاسیکی ستارنواز شاہ گلی زار کانام بھی بہت معروف ہے۔اس گاؤں میں اہم قبیلے مندرجہ ذیل ہیں۔ سید،زوندرے(سرانگے،اورشاہگوشے)، داشمنے،رضا،ھشے،یاغیشئے،غوڑونے، اچھانجھے،باسوٹ،شیشے،بول ژاوے
،چھیرموژے، سنگھے،فرانگی۔
(1)سید، رئیس کے زمانے میں خراسان سے آئے تھے۔محمد رضائے ولی کی اولد ہیں۔جسکا مزارسونوغورمیں موجود ہے۔تقریباًگیارہ پشت سے یہ لوگ یہاں آباد ہیں۔یہاں سے یہ دوسرے دیہات میں بھی پھیلے۔
زوندرے(سرانگے)یہ ایک قدیمی قوم سومالک کی اولاد بتائی جاتی ہے۔جسکی حکومت موڑکھو تورکھو سے اسکردو تک کسی زمانے میں پھیلی ہوئی تھی۔یہ قوم تانگیر میں بھی آباد ہے۔جہاں ان کورونو کا نام دیا جاتا ہے۔چترال کے مختلف حصوں میں اس قبیلے کے افراد آباد ہیں۔ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان کا شجر امام حنیفہ ؒ تک ملتا ہے۔چترال میں ان کی آمد کے بارے ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ محمد رضائے ولی کے ساتھ خراسان سے آئے تھے۔اور سنوغر میں سکونت پذیر ہوگئے تھے۔سرانگ کامکان پچھلی صدی کے شروع تک موجود تھا۔جو بعد میں منہدم ہوگیا۔شاہ گوشے ان کی ایک متوازی شاخ ہے۔یاغیشے،یاغشی سرانگ کا بھائی تھا۔اسکی اولاد یاغیشے کہلاتی ہے۔ان کاتیسرا بھائی سرونگ ڑاسپور میں آباد ہوا۔جہاں اسکی اولاد موجود ہے۔درونے،باسوٹے،اچھنجے،بول ژادے اور شیشے یہاں کے قدیمی باشندے ہیں۔جنہوں نے اس جگے کو آباد کیا۔
5۔سنگھے کشمیر سے کسی زمانے میں آئے تھے۔پہلے میراگرام (نمبر1)میں آباد ہوئے وہاں سے ان کی اولاد یہاں آئی۔
(6)داشمنے اور رضا موڑکہو سے ھشے مستوج سے آکرحال کے زمانوں میں یہاں آباد ہوئے۔
(7)فرانگی۔یہ اینگلو چترال(Angle Chitral)خاندان ہے۔جوکسی انگریزکی ایک مقامی خاتون سے شادی کے نتیجے میں وجود میں آئی۔یہ خاندان گذشتہ صدی کے شروع سے یہاں آباد ہے۔اب اسکی تیسری یا چوتھی پشت ہوگی۔
پرواک۔۔سونوغور کے بالمقابل دریائے مستوج کے مغرب کی طرف ایک وسیع میدان میں اپر اور لوئر پرواک کے دیہات آبادہیں۔پرواک کی وجہ تسمیہ کے بارے میں کچھ پتہ نہیں۔البتہ اس مقام کی تاریخی اہمیت بہت زیادہ ہے یہاں پُرانے قلعے کے آثار بھی ملے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ یہاں درباتوشالی نام کے ایک مقامی چیف کاقلعہ بھی تھا جسکی تفصیل سرآرل سٹائین نے دی ہے۔لیکن اسکے ذکر سے پہلے یہاں کے بارے ایک لوک کہانی ہے اس کا ذکر ضروری ہے۔اس کہانی کے راوی گل نواز خاکی مرحوم تھے۔
”کہتے ہیں چار پانج سوسال پہلے پرواک ایک سرسبزوشاداب علاقہ تھا۔یہاں ایک رئیس (دولتمند)خاندان آباد تھا۔جس نے دور سے دریا سے نہرلاکر اس گاؤں کو آباد کیا تھا۔ایک زمانے میں اس خاندان کے تین بھائی تھے۔دربتوشالی،ہمدیک اور شاپیر۔یہ بھائی اپس میں بہت محبت کرتے تھے۔ایک دفعہ اُنہوں نے اس بات پر آپس میں مقابلہ کیا کہ ان میں زیادہ دولتمند کون ہے۔چنانچہ سب سے پہلے دربتو شالی نے اپنی ثروت کا مظاہرہ اس طرح کیا کہ پرواک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جوتقریباً6میل ہے)بڑی سڑک پرگھٹنوں جتنی اونچائی کے بقدر گندم کے دانے بچھائے اور لوگوں میں تقسیم کئے۔دوسرے بھائی ہمدیک نے تمام علاقے کے لوگوں کے لئے سنہ بچی(ہریرے کی مانندایک قسم کاکھانا،جوآٹا،گھی اور نمک ملاکر بنایا جاتاہے)پکوایا اور لوگوں کی دعوت کرکے ان سے کہا کہ خوب سیرہوکے جاؤ اور جاتے ہوئے ایک لقمہ قدر سنہ بچی میرے قلعے کی دیوار پرلگاتے جاؤ۔لوگ کھانا کھانے کے بعد جب چلے گئے توپتہ چلا قلعے کی تمام دیواریں سنہ بچی سے پلاسٹر ہوچکی تھیں۔تیسرے نمبر پرشاہ پیر کی باری تھی۔وہ مال داری کے لئے مشہورتھا چنانچہ اس نے حکم دیا کہ اپنی پن چکیوں کوبند کردواسکے بعد ایک وقت پراس نے اپنے مال مویشیوں سے حاصل کردہ دودھ ان چکیوں کی نالیوں میں چھوڑا۔جسکے نتیجے میں سات دنوں تک چکیاں چلتی رہیں۔اس طرح تینوں کا مقابلہ برابر(Draw)رہا۔
1906میں اسٹائین نے دربتو شالی کے قلعے کو وقت کی کمی کی وجہ سے سرسری انداز میں دیکھا اورلکھا کہ یہ قدیم زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔قلعہ کھنڈرات کی جوبچی ہوئی دیواریں ہیں مستطیل شکل کی ہیں۔اگرچہ ناہموار طورپر (Rough)تعمیر ہوئی ہیں۔قلعہ کاباہر کے دالان کا حصہ کسی قدرنظرآرہاتھا۔۔۔۔وقت دیرہونے کی وجہ سے زیادہ اندر سے دیکھنے کاموقع نہیں مل سکا۔
سٹائین سے تقریباً ایک سوسال بعد محکمہ اثار یات صوبہ پختونخواہ نے ڈاکٹر احسان علی(ڈایرکٹر)کے زیرنگرانی میں اس مقام کی تفصیلی کھدائی کی۔ان کی رپورٹ کے مطابق یہ جگہ پُرانے زمانے میں تین بھائیوں میں سے ایک بھائی دربتوشالی کاقلعہ تھا۔دوسرے بھائی کے نام شپیراور ساق لکھا ہے۔رپورٹ فرنٹیر ارکیالوجی جلد سویم(2005)کے مجلے میں چھپی ہے۔وہاں سے استفادہ کرسکتے ہیں۔یہاں مختصراًاہم دریافت شدہ معلوما ت کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔(1)گیارہ خندقیں کھودی گئیں جو گندھارا دور کے قبروں کے کلچرسے تعلق رکھتی تھیں۔جو اشیاء ملیں ان کا تعلق بھی اسی دور سے تھا۔
(2)گیارہ قبریں ملیں۔تین طرح کے دفن کے طریقے ملے۔مثلاًدفن کرنا،مردوں کوجلانا اور جزوی طورپر دفن کرنا۔یہ تینوں اقسام کے دفنے طریقے گندھارا قبروں کے کلچر میں بھی دریافت ہوئے ہیں۔
(3) ایک قبرنما سٹرکچر ایسا ملاجوکہ اندر سے بالکل خالی تھا۔البتہ اس کے اندر کچھ پتھر پڑے ہوئے تھے۔جوغالباًجادوٹونے کے لئے استعمال ہوتے ہوں۔اس قسم کی خالی کانسی قبریں کسی کی یادمیں بنائی جاتی تھیں۔جن کوتعویزکہاجاتا ہے۔جووسطی ایشیاء میں کانسی کے دور(Bronze Age)سے تعلق رکھنے والے علاقوں میں پائی جاتی ہیں۔
(4)سونے اور پیتل کی معمولی ایشاء بھی ملیں۔(5)جواشیاء ملیں ان کی تفصیل یہ ہیں۔
ایک پیتل کاکانسی کامہر،8عدد سونے اور پیتل یاکانسی کی بالیاں،کسی قدر قیمتی ایک انگوٹھی،لوہے کے کڑے،دوعدد چھری تیز کرنے کے پتھر،ایک پتھر کی تختی،دوعدد لوہے کی کلہاڑیاں،چھ عددنیزے کے بھالے،ایک عددمچھلی پکڑنے کا ہک،28عددکالی عقیق،لاجورداورنقلی لاجورد کے دانے،دوعدد چکی کے پتھر پانچ عدد سوراخ شدہ پتھر ایک چھری کا بلیڈ ایک عدد درانتی کا بلیڈ۔
پرواک میں اہم قبیلے بول ژاوے،شاموتے،زوندرے،فرنگی، نظارے،داشمنے،ھشے بوشے وغیرہ ہیں۔جوچترال کے اندر کے مختلف جگہوں سے یہاں آکرآباد ہوئے ہیں۔تقریباًتیس سال پہلے سائفین سکیم کے تحت پرواک میں ابپاشی کوترقی دی گئی ہے جسکی وجہ سے اس وسیع میدان کابہت زیادہ حصہ آباد ہوا اور یہاں کی آبادی بھی کافی بڑھ گئی۔یہاں کے پُرانے حالات پرغور کرنے سے یہ سوال پیدا ہوتاہے۔کہ پُرانے زمانے میں جب یہ گاوں سرسبز اور آباد گاؤں تھا۔تواس وقت یہاں پانی کابندوبست کسطرح کیاگیا ہوگا۔دریاسے نہرلانے کے لئے کم ازکم نودس میل اوپر نہربنانی پڑتی۔کوئی نشانات نہیں۔کیا اس زمانے میں نسر گول میں پانی کی مقدار کافی زیادہ تھی یاکیا؟؟ (باقی ائیندہ)
ضروری نوٹ:۔یہ مضمون میری زیرتصنیف کتاب(چترال۔شمال اور جنوب کاسنگم)کاحصہ ہے۔بعض روایاتی معلومات مقامی لوگوں سے لئے تھے۔اگرکوئی اضافہ یاترمیم کرناچاہے توڈایرکٹ میرے واٹس اپ پررابطہ کریں۔(03449700090)