بند گلی میں خود کلامی
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
میرے بزرگوں اور چاہنے والوں نے مجھے حالات حا ضرہ پر لکھنے سے منع کیا ہے تاہم کبھی کبھار وطن کی مٹی مجھے مجبور کرتی ہے اور مجبوری میں اس شجر ممنوعہ کو ہاتھ لگانا بلکہ سچی بات یہ ہے کہ منہ لگانا پڑتا ہے
موجودہ حالات میں وطن عزیز کی سیاست بند گلی میں داخل ہوچکی ہے اور میں آج بزر گوں کی تما م نصیحتوں کو بھلا کر بند گلی میں خود کلا می یعنی مو نولاگ کرنے لگا ہوں میں اپنے آپ سے کہہ رہا ہوں کہ اسلا م اباد کے سفارتی اورلاہور کے صحا فتی حلقوں میں جو چہ می گوئیاں ہو رہی ہیں ان پر دھیان دو، سوچو، غور کرو اور چپ رہو چہ میگوئیاں یہ ہیں کہ ملکی سیاست جس انتشار کی طرف جا رہی ہے اس کا تیر بہدف علاج آئین کا مرحوم و مفغورآر ٹیکل تھا ایسے وقت پر یہ نسخہ کا ر گر ثابت ہوتا تھا
صدر مملکت تمام اسمبلیوں کو توڑ کر نگران حکومت بناتے تھے اور 90دن کے اندر نئے انتخابات کر تے تھے اس کار آمد آرٹیکل کو تر میم کی زد میں لاکر سیاست دانوں نے اپنی مشکلات میں اضا فہ کیا آئینی اور قانونی بحران کا سارا ملبہ عدلیہ پر ڈالنا مسئلے کا کوئی حل نہیں عدلیہ کا ہر بنچ آئینی معا ملا ت کو اپنی الگ عینک سے دیکھتا ہے جو بات اسلا م اباد میں آئینی نظر آتی ہے وہی بات لاہور میں غیر آئینی بن جا تی ہے اس طرح گیند ایک انگریزی محا ورے کے مطابق ایک کورٹ سے دوسرے کورٹ اور دوسرے کورٹ سے تیسرے کورٹ کی طرف لڑ ھکتی رہتی ہے
ایسے حالات میں مختلف ملکوں کے اندر مختلف تجربات ہوئے ہیں تر کی، بر طا نیہ اور دیگر ملکوں کی نسبت بنگلہ دیش کی مثا ل ہمارے لئے زیا دہ منا سب اور قرین قیا س ہے، 2006ء میں بنگلہ دیش کے اندر طواف الملوک کی آئی سیا سی تعطل پیدا ہوا تو چیف جسٹس نے تما م سیا سی جماعتوں کو ایک میز پر بٹھا یا طویل مذاکرات کے نتیجے میں ایک عبوری حکومت پر اتفاق ہوا ریٹائرڈ بیو روکریٹ فخرالدین احمد کو چیف ایڈ وائزر کا نام دے کر حکومت کا سربراہ بنا یا گیا جس نے 11مشیروں کی کا بینہ بنا ئی جس میں اعلیٰ تعلیم یا فتہ لوگ بیو رو کریٹ، وکلاء، ججز لائے گئے
دو سال بعد انتخا بات ہوئے اور شیخ حسینہ واجد کی حکو مت آئی حسین محمد ارشاد اور خا لدہ ضیاء کی پارٹیوں کو شکست ہوئی سب نے شکست تسلیم کر لی ، بنگلہ دیش کی سیا ست، حکومت، معیشت اور معا شرت معمول پر آگئی ترقی پذیر ملکوں میں جمہوریت کو پٹڑی سے اتر نے سے بچا نے کے لئے بنگلہ دیش کا مذکورہ ما ڈل کا میاب ثا بت ہوا ہم نے کسی دوسرے ملک کی نقل تو نہیں کر نی پھر بھی کسی ملک کی کا میا بی سے سبق لینے میں کیا ہر ج ہے
اس وقت وطن عزیز پا کستان میں چار شخصیات ایسی ہیں جو تمام سیا سی قو توں کو ایک جگہ بٹھا کر با ہمی گفت و شنید اور مذکرات کے ذریعے سیاسی تعطل کو ختم کر کے قومی سیا ست کو بند گلی سے نکا لنے میں بقول شاہ صاحب ’’اپنا کردار‘‘ ادا کر سکتی ہیں پہلی شخصیت صدر مملکت کی ہے جو پار لیمنٹ کی منتخب کر دہ شخصیت ہیں ان کے پاس ملک کا اعلیٰ ترین آئینی عہدہ ہے آئین کی رو سے ان کا کر دار غیر جا نبدار ہے دوسری شخصیت چیئر مین سینیٹ کی ہے وہ ایوان با لا کے منتخب سر براہ اور صدر کے بعد دوسرے نمبر اعلیٰ ترین آئینی عہدہ رکھتے ہیں صدر کی عدم مو جود گی میں انہی کو قائم مقا م صدر بنا یا جا تا ہے یہ دونوں شخصیات سیا سی عمل کے ذریعے منتخب ہو کر آئی ہوئی ہیں اس لئے سیاسی جماعتوں اور سیا ستدانوں کو دونوں کا احترام کرنا چا ہئیے اگر دونوں شخصیات نے اپنا کر دار ادا کر نے سے معذوری ظا ہر کی تو چیف جسٹس آف پا کستان کا نمبر آتا ہے ان کی دعوت پر سب کو یکجا ہو نے میں کوئی تامل نہیں ہو گا پھر بھی تا مل ہوا تو آخر میں چیف آف آرمی سٹاف کو آئینی قدم اٹھا تے ہوئے تمام سیا سی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر ’’اعتماد سازی‘‘ کے ذریعے کسی مثبت نتیجے پر پہنچنے کی دعوت دینا ہوگا مجھے یاد آیا کہ بزرگوں نے مجھ کو ایسی باتیں لکھنے سے منع کیا ہے مگر یہ چہ میگو ئیاں ہیں یا بند گلی میں خود کلا می! میری تو بہ !