داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
ایوان بالا میں گذشتہ روز پرائیویٹ ممبروں کا دن تھا اس دن اراکین پا رلیمنٹ کے سوالات اور متعلقہ وزارتوں سے بھیجے گئے جوا بات کو ایوان میں پیش کیا جاتا ہے تجربہ کار سیاست دانوں نے کئی بارتجویز دی ہے کہ ایوان کا کاروائی کو ٹیلی وژن پر دکھانے کی اجازت نہ دی جائے لیکن ان تجاویز کے مقابلے میں دیگر ارا کین زور دیتے ہیں کہ ایوان کی کاروائی کوٹیلی وژن پر دکھائی جائے چنانچہ ٹیلی وژن پر کاروائی دیکھتے ہوئے باربار احساس ہوتا ہے کہ ایوان کی تو ہین ہو رہی ہے اس کاروائی کو نہ دکھانا بہتر تھا
اس روز سینیٹر فلک ناز چترالی کا بھیجا ہوا سوال اور اس کا جواب ایوان کے سامنے رکھا گیا، فاضلہ رکن نے سوال بھیجا تھا کہ کیا وزیر مواصلا ت اس بات کی وضاحت کرنا پسند کرینگے کہ خیبر پختونخوا کو گلگت سے ملا نے والی اہم شاہراہ چترال شندور روڈ پر ستمبر 2021ء میں زور و شور سے کام شروع ہو اتھا مئی 2022 میں اس اہم شاہراہ پر کا م کو کیو ں بند کیا گیا نیز چترال سے کالاش ویلی جانے والی سڑک پر بھی اسی طرح کام جا ری تھا جولائی 2022 میں اس سڑک کا کا م کیو بند ہوا دونوں منصوبوں کو بند کرنے سے قومی خزانے کا جو نقصان ہوا وہ کون پورا کرے گا اور حکومت پر عوام کا جو اعتماد اُٹھ گیا اُسے کون بحا ل کرے گا اُس روز وزیر مواصلا ت ایوان میں نہیں آئے تھے وزارت موا صلا ت نے اپنے ذیلی ادارہ نیشنل ہائی وے اتھا رٹی سے جواب حاصل کیا تھا
وزیر مملکت برائے پارلیما نی امور نے ایوان میں آکر جواب دیا مگر جواب غلط تھا این ایچ اے کی طرف سے غلط جواب داخل کرنا ایوان کی تو ہین تھی یہ نکتہ استحقاق بھی بنتا ہے وزارت موا صلات کا جواب آئینی اور قانونی زبان میں نہیں تھا جواب میں کہا گیا کہ یہ منصوبہ 2017 میں اُسی وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے منظور کیا، سینیٹر فلک ناز چترالی کی پارٹی نے 3سال چند مہینے اورچند دن حکومت میں رہ کر منصو بے پر کام نہیں کیا اس کے بعد وزارت موا صلا ت نے لکھا تھا کہ ہم نے کا م اس لئے بند کیا کہ لو گوں نے زمین دینے سے انکا ر کیا اگلے جملے میں لکھا تھا کہ شدید برف باری کی وجہ سے کا م بند کرنا پڑا سیاسی الزام تراشی پرائیویٹ ممبر ڈے پر سوالوں کے جواب میں کسی بھی محکمے کو زیب نہیں دیتی سینیٹر فلک ناز چترالی نے ضمنی سوالات میں اس کی طرف چیئرمین کی توجہ دلائی نیز انہوں نے ریکارڈ درست کر تے ہوئے پو چھا کہ اگر لوگوں نے زمین نہیں دیا تو کام کیسے ہورہا تھا اور بفرض محال سابقہ حکو مت نے کام نہیں کروایا تو 15مقا مات پر بھاری مشنیری کس کے حکم سے اور کس کے بجٹ سے کام کر رہی تھی فاضلہ سینیٹر نے چیئر مین کی تو جہ دلاتے ہوئے سوال اُٹھا یا کہ اگر لو گوں نے زمین دینے سے انکار کیا تھا تو این ایچ اے کو برف باری کا جھو ٹا اور من گھڑت بہا نہ بنا نے کی ضرورت کیوں پیش آئی
وزیر پا رلیمانی امور کی بے بسی دید نی تھی ہم نے سوچا کاش ایوان بالا کی کاروائی ٹیلی وژن پر نہ دکھا ئی جاتی تو ایوان کی اس طرح تو ہین نہ ہوتی این ایچ اے کی طرف سے جو باتیں چھپا ئی گئیں وہ ایسی باتیں ہیں جن میں سوال کا جواب آتا ہے مثلاً جون 2021 میں بجٹ پاس ہوا ستمبر 2021 میں چترال شندور روڈ پر کام شروع ہوا مارچ 2022 میں کلاش ویلی روڈ پر کام شروع ہوا مئی 2022ء میں فنڈ روک لئے گئے اس لئے کنٹریکٹرز کو کام روکنے کا اشارہ دیاگیا مشینری دوسری جگہ منتقل کی گئی باقاعدہ حکم جاری ہوا کہ بقا یامشینری بھی چترال کے دونوں سائیٹوں سے نکا لی جائے اور کام کو بند کیا جائے یہ چار جملے تھے جن میں سوال کا جواب تھا اکتو بر، نو مبر، دسمبر اور جنوری میں کوئی برفباری نہیں ہوئی اگر کا م بند نہ ہوتا تو فروری میں برف باری کو سب دیکھتے اور کام بند کرنے پر کوئی سوال نہ اُٹھاتا اب وزارت مواصلا ت نے غلط بیانی کر کے نہ صرف معزز سینیٹر کا استحقاق مجروح کیا بلکہ ایوان با لا کا استحقاق بھی مجروح ہوا ہے۔