Inayatullah Faizi

اعظم خان اور پشاور

داد بیداد

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

میرا دوست اعظم خان پشاور کا عاشق تھا مجھے شاہی باغ کے قریب وہ گلی اچھی طرح یاد ہے جہاں اُس نے کر ایے پر گھر لیا تھا میں ان سے ملنے جاتا تو ہم دیر تک پشاور اور چترال کی باتیں کر تے اس گھر میں ان کے بچوں نے تعلیم حا صل کی، اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے بظاہر چھوٹا اور سیدھا سادہ گھر تھا مگر اس گھر میں برکت تھی 27ستمبر 2022کو 77برس کی عمر گزار نے کے بعد اعظم خان پشا ور ہی میں وفات پا گئے تو میرے ذہن کی سکرین پر ان کی پوری زند گی کے شب و روز ایک فلم کی طرح ایک ایک ہوکر آتے جا تے رہے 1945ء میں چترال کے تاریخی گاوں لون میں متوسط گھر انے کے سر براہ شیر گلی خان کے ہاں پیدا ہو نے والا محمد اعظم خا ن زند گی میں بڑا آدمی بن گیا

اعظم خان اور پشاور
اعظم خان

اپنی مرنج مرنجا ن شخصیت کی و جہ سے بہت بڑا حلقہ اثر پیدا کیا دوستوں کا وسیع نیٹ ورک بنایا اور وقت آنے پر سب کو سوگوار چھوڑ گیا ان کا جنم بھو می لون وہ جگہ ہے جہاں ان کے جدامجد بابا ایوب سر مست نے کم و بیش 500سال پہلے فرغانہ ترکستان سے آکر سکونت اختیار کی، ان کی اولا د میں کٹورے خاندان کو چترال کی حکومت ملی شاہنوے خاندان کو درویشی کی خلعت عطا ہوئی جو بابا ایوب سرمست کی میراث تھی اعظم خا ن کو اس پر فخر تھا

انہوں نے 1963 میں سٹیٹ ہائی سکول چترال سے میٹرک پاس کیا، اعلیٰ تعلیم کا شوق ان کو کھینچ کر ساحل سمندر پر واقع شہر کراچی لے گیا کراچی یونیورسٹی سے انہوں نے اکنامکس میں ایم اے کیا کراچی یونیورسٹی میں ان کے جو ہم عصر طالب علم تھے ان میں شفیع نقی جامی بھی شامل تھے جنہوں نے عالمی نشر یا تی ادارے سے شہرت پا ئی پا کستان میں قو می شنا ختی کار ڈ کی سکیم آئی تو ڈسٹرکٹ رجسٹریشن افیسر کی آسا می کے لئے پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے اعظم خان ضلع چترال کے پہلے ضلعی سربراہ مقرر ہوئے یہ بہت بڑا چیلنج تھا

ضلع کے اندر نیا دفتر قائم کرنا ، سٹاف بھر تی کرنا اور عوام کو رجشٹریشن کے فوائد سے آگاہ کرنا تھا، پھر 14850مر بع کلو میٹر رقبہ والے ضلع کی 5لا کھ آبادی کے لئے شنا ختی کارڈ اور بچوں کا فارم بی جاری کرنا اس سے بھی زیا دہ مشکل تھا 1973 میں چترال کے پورے ضلع میں فوٹو گرافی کی کوئی سہولت نہیں تھی محمد اکرم لال اور شہر یار بیگ میتار ژاو نے ہنگامی طور پر سٹوڈیو بناکر یہ ضرورت پوری کی لیکن چترال کی 32پہا ڑ ی وادیوں سے لو گوں کو سٹو یو تک لا نا اور تصویر کھینچنے پر قائل کرنا مشکل تھا یہ کام انہوں نے مو بائیل ٹیموں کے ذریعے انجام دیا اور ہر سال وزارت دا خلہ کی طرف سے دیئے گئے اہداف کو بحسن و خو بی پورا کر کے تعریفی اسناد اور ایوارڈ لیتا رہا، انسانی اوصاف اور ذاتی خو بیوں کے حوالے سے اعظم خا ن مثا لیت پسند تھا ہر کام کوا علیٰ ترین پیما نے پر انجام دینا ان کا شوق تھا ، دفتری نظام میں نظم و ضبط کا پا بند اور اصو لوں پر سختی سے کار بند تھا، نیشنل رجسٹریشن ایکٹ ان کو زبا نی ازبر ہو چکا تھا وہ اُٹھتے بیٹھتے قانو نی نکا ت اور ایکٹ کے دفعات کا حوالہ دیا کر تے تھے

اعظم خا ن خو ب صورت لبا س کے دلدادہ تھے ہر مو سم میں جدید فیشن کے حسین لبا س ایسے زیب تن کر تے کہ ہر لبا س اُن پر خو ب جچتا تھا جن لو گوں نے اُن کی محبت دیکھی وہ ان کو سراپا محبت پائے جن لو گوں نے ان کا غصہ دیکھا وہ اُن کو جا بر سلطان اور نا ہنجا ر ڈکٹیٹر سے بھی خطرناک شخصیت قرار دیتے نرمی اور سختی کے حسین امتزا ج نے ان کی شخصیت کو دلاویز رنگ دیا تھا ان کی اہلیہ نے بچوں کی تربیت میں بڑھ چڑ ھ کر ان کا ساتھ دیا چنا نچہ بیٹی زرینہ اعظم ڈاکٹر بن گئی بیٹوں میں سردار اعظم خان ریڈیو پا کستان میں سینئر پروڈسر بنا، مختار اعظم خان نے نا درا میں باپ کی جگہ لے لی، اختر اعظم خان نے پا ک فو ج میں کمیشن لیا با پ کی وفات سے ایک سال پہلے لفٹننٹ کرنل کے پو سٹ پر ان کی تر قی ہوئی یوں انہوں نے اپنی اولاد کو خوب پھلتے پھولتے دیکھا اعظم کا ن نامور صحافی محمد شریف شکیب کے چچا زاد بھائی تھے اللہ پاک اُن کی روح کو دائمی راحت اور سکون نصیب کرے میری ان سے آخری ملا قات بیما ری کے دوران ہوئی بو لنے سے عا جز آچکے تھے کا غذ پر لکھ کر مدعا بیان کرتے تھے میں نے کا غذ پر لکھا آپ خو ش قسمت ہیں آپ کی اولاد کو کامیاب زند گی ملی انہوں نے جوا ب میں لکھا ;پھلا پھولا رہے یارب چمن میری اُمیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پا لے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *