وادی یارخون کے خوبصورت دیہات
تحریر: شوکت علی
الحمد اللہ وادی یارخون بھی آہستہ آہستہ دنیا کے ساتھ منسلک ہوتا جاہا ہے۔ گزشتہ دو سالوں سے پاکستان کے مختلف نشیبی علاقوں سے کثیر تعداد میں سیّاح اس ایریا کا رُخ کررہے ہیں۔ اُمید ہے کویڈ کے خاتمے کے ساتھ انٹرنیشنل سیاح بھی ماضی کی طرح اس خطے کی طرف رخت سفر باندھینگے پورا علاقہ چترال کو دیکھا جائے تو سیاحت کے لحاظ سے نہایت ہی مناسب جگہ ہے البتہ جس چیز کی کمی ہے وہ یہاں کے کمیونیکشن کا فقدان اور خاص کر پورے علاقے میں سڑکوں کی ناگفتہ بہہ حالت ہے۔
مرکز سے دور ہونے اور یہاں کے باسیوں کے کچھ ذیادہ ہی شرافت اور خاموشی سے فائدہ اُٹھاکر حکومتوں نے بھی اس علاقے کو اپنی اصلی حالت پے چھوڑنے کو ترجیح دی ہیں اور ابھی تک جو تھوڑا بہت کچھ ہوگیا ہے وہ سرکار کی جانب سے کم اور مختلف این۔جی۔اُوز کی مرہون منت ہیں۔
جغرافیائی اور تاریخی لحاظ سے بھی یارخون ویلی کا اپنا ایک منفرد مقام ہے۔ اس کی مغربی سرحدیں جا بجا افغانستان کے نہایت پُرامن اور ثقافتی لحاظ سے بہت ہی زرخیز علاقہ بدخشان سے ملی ہوئی ہیں۔ مثلا درّائے چیٹیسار جو یہاں چیٹسار کے نالے سے ہوتے ہوئے وہاں یور نامی گاوں میں نکلتا ہے اور دوسرا درّائے کنخون اور بدخشان میں بھی کنخوں نامی گاوں میں نکلتا ہے، تیسرا درّہ دروازہ جو بروغل پاس سے جاتے ہوئے سرحد واخان کو جاتا ہے۔
مشرقی سرحدیں شروع سے آخر تک گلگت بلتستان کے ضلع غذر سے ملی ہوئی ہیں۔مثلا لوئر یارخون کے آخری گاوں گزین سے ہوتے ہوئے مشہور درّہ تُھوئی ڈسٹرک غذر کے یاسین ویلی تُھوئی کو جاتا ہے۔ آگے جاکر بروغل کے چکار نالے سے جاکے یاسین ویلی کے آخری خوبصورت ویلج درکوت کو نکلتا ہے۔ سیدھا جاکر لشکرگاز پھر قرمبر لیک سے ہوتے ہوئے سُخترآباد اشکومن ویلی کو جاتا ہے۔
یارخون ویلی کے ان تمام دوسرے علاقوں کے ساتھ لینکیجز کے علاوہ اب ہم دیکھنے کی کوشش کرینگے کہ اس حسین وادی کے اندر اور کیا خصوصیات ہیں جو ٹورزم کے حوالے سے سیّاحوں کے لیے دلچسپی کے باعث بن سکتی ہیں۔
میرے اندازے کے مطابق وادی یارخون کی اولین خصوصیت یہ ہے کہ یہ اپنے آغاز یعنی بریپ سے لیکر اپنے انجام لشکرگاز بروغل تک دریائے یارخون کے دونوں اطراف کافی کشادہ، ہموار اور نہایت خوبصورت دیہات پر مشتمل علاقہ ہے جو یقینا سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے قابل ہیں۔
سے بروغل چھاونی ۱۲۷ کلومیڑ کا فاصلہ ہے وہاں سے لشکرگاز ۲۴ کلومیٹر اور وہاں سے قرمبر جھیل ۲۶ کلومیٹر کا فاصلہ رکھتا ہے۔ تو فاصلے کے لحاظ سے دیکھا جائے یہ علاقہ کافی وسیع و عریض ہے اور سیاحوں کے لیے اس علاقے کو دیکھنے کے لیے کافی وقت لگے گا۔
وادی کے قابل دید مقامات حسب ذیل ہیں۔ بریپ گاوں جیساکہ وادی کا گیٹ وئے ہے سے اگے ۲۰ کلومیٹر کے فاصلے پر بنگ گاوں غربا اور میراگرام شرقا آباد ہیں اور دونوں گاوں تاریخی اہمیت کے متحمل ہیں۔پاور، وسم اور زوپو بھی بہت حسین مقامات ہیں۔ اپر یارخون میں شوست،یارخون لشٹ اور کنخون قابل دید ہیں۔بروغل ویلی میں شکار واز،چلمرآباد اور لشکرگاز تاریخی اہمیت کے حامل جگہے ہیں۔
۴۔ویلی کے اندر بے شمار ایسے نالے﴿گول﴾ ہیں جو قدرتی حُسن سے پیار کرنے والوں کےلیےنعمت خُداوندی سے کم نہیں۔اس حوالے سے اختصار کے ساتھ یارخون ویلی کے چند قابل دید نالوں کا ذکر یہاں آپ کے گوش گزار کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔
١۔گرورگول۔ بریپ سے کوٴی چودہ کلومیٹر آگے جاکر مرتنگ گاوں میں ایک پُل کے ذریعے راستہ مشرق کی جانب یوکم ایک چھوٹا سا گاوں کو جاتا ہے۔اسی گاوں میں ایک نالہ نکلتا ہے جو گرور گول ہے۔گرور گول جاتے ہوٴے نالے کے دونوں اطراف کے بلند و بالا پہاڑ اتنے قریب ہیں کہ یقین نہیں اتا کہ اندر جاکر اتنا بڑا اور خوبصورت ویلی موجود ہے۔یوکم سے آدھا گھنٹے پیدل چل کر گرور ولیج میں داخل ہونگے اور اگے جاتے ہوٴے نالے کے مغرب کی جانب موڑ دہ تور دہ اور بازان واقع ہیں اور نالے سے مشرق کی طرف زیک نامی خوبصورت جگہ واقع ہے۔گرور سے غاری ایک گھنٹے پیدل کا راستہ ہے کیونکہ فی الحال گرور کے شروع تک کافی دشوار گزار جیپ ایبل سڑک بن گیا ہے وہاں سے اگے شوز ٹھیک کرکے پیدل چلنا ہے۔جب آپ گھنٹہ بھر پیدل چل کر غاری میں داخل ہونگے تو وہاں تین ذیلی نالے مختلف سمت سے اکر مجموعی گرور نالے کو تشکیل دیتے ہیں۔اس طرح گرور غاری پانج خوبصورت حصوں پر مشتمل ہے۔پنجی لشٹ سے تور دہ،موڑ دہ سے غاڑ کورینی اور خونخاور،تریپ،شاق سے ووم تک۔گرور گول اپنے حسین چشموں،نالوں،جُنیپر اور پرچ کے جنگلات اور قدرتی حیات کے لحاظ سے بہت مشہور ہے۔گزشتہ چند سالوں سے لوٴیر چترال اور اپر چترال کے بہت سارے سیاحت سے شعف رکھنے والے اس نالے کا رُوخ کرتے ہیں۔
۲درّائے کھوتان: بریپ پُل عبور کرتے ہوٴے استچ گاوں اور دیزگ کے درمیان ایک بڑا میدان کھوتان لشٹ کے اُوپر پہاڑی درّہ درّاٴے کھوتان کہلاتا ہے اور یہ قدیم زمانے میں یارخون ویلی کو تورکہو سے ملانے کا واحد راستہ تھا۔یہ درّہ پورہ ایک دن پیدل چلنے کا راستہ ہے۔ اسی پیدل کے راستے کی بناء پر ہم دیکھتے ہیں کہ آج کی نسبت قدیم زمانے کی رشتہ داریاں کھوت اور یارخون میں زیادہ تھیں۔
۳بنگ گول: یہ درّہ بنگ سے چل کر تورکہو کے حسین وادی ریچ میں سو ریچ کو نکلتا ہے۔کہتے ہیں کہ یہاں گلیشر کے اُوپر سے گزرنا پڑتا ہے اور دو دن کے پیدل کی مسافت ہے۔
۴وادٴے گزین اور درّاٴے تھوٴی: لوّیر یارخون کے آخری تین خوبصورت گاوں رکشن،گزین اور نیچاغ ایک الگ چھوٹے وادی کی حیثیت رکھتے ہیں۔گزین ویلی کی بہت ساری خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ یہ قدیم الایّام سے بہت ہی آباد علاقہ ہے۔یہاں جلانے کی لکڑی،مال مویشیوں کےلیے چارہ اور زمینات کےلیے پانی کی فراوانی ہے۔اسی وادی سے گزر کر مشہور درّہ تُھوی اس علاقے کو یاسین کے قابل دید ویلی تھوی سے ملاتا ہے اور دہشت گردی کی وباء اور پھر پنڈامک سے پہلے کثیر تعداد میں بیرونی سیّاح اسی درّے سے ہوتے ہوٴے گیلگت بلتستان جایا کرتے تھے۔اس ویلی کی ایک اور حُسن یہ بھی ہے کہ ماہ مئ کے اینڈ اور جون کے شروع میں یہاں جنگلی گلاب ﴿تھُرونی﴾ کے درخت بہت زیادہ ہیں اس موسم میں وہ کھلتے ہیں اور اسے مقامی زبان میں تھُورون اسپرُو کہتے ہیں اور خاص کر نیچاغ سے واپس آنے کو جی نہیں کرتا۔پورے لوویر یارخون میں اے۔ڈی۔این﴿اے۔کے۔ار۔ایس۔پی﴾ کی بدولت بجلی کی فراوانی ہے۔ہم علاقے کے مکّین کی جانب سے اس نعمت کا جتنا بھی شکر ادا کیا جاٴے کم ہے۔
اپر یارخون کا بہت مشہور درّہ اشپرڈوک ہے جو یوشکیست گاوں سے ہوتے ہوٴے تاریخی مقام شہ جنالی سے گزر کر تورکہو کے مشہور علاقہ ریچ کے آخری گاوں روا کو نکلتا ہے۔اس کے علاوہ کند پاٴین اور بالا کے نالے بہت خوبصورت ہیں اور کہتے ہیں کہ ان نالوں میں وافر مقدار میں مختلف معدنیات موجود ہیں۔اس طرح بروغل جاتے ہوٴے گرزیندان کے میدان سے آگے اشکول کونج کا جنگل بھی نہایت قابل دید ہے۔
شکر الحمد اللہ اب علاقے میں نئی نسل زیادہ سے زیادہ تعلیمافتہ ہوتی جاری ہے اور لوگوں کی معاشی حالت بھی پہلے کی نسبت آچھی ہے۔لہذا اب لوگوں کو ذریعہ معاش کے بھی مختلف شعبوں کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے اور ان شعبوں میں سے ایک اہم میدان ٹورزم اور ہوٹلنگ بھی ہے۔اس حوالے سے علاقے کے کچھ نوجوانوں نے ابتداٴی قدم بھی اُٹھاٴے ہیں اور اے۔کے ڈی۔این کے ایک ادارے نے بروغل میں چند بہترین گیسٹ ہاوسیز بناکے کیونٹی کے حوالے کیے ہیں۔البتہ ان کو مناسب طریقے سے سیزن میں چلانے کی بھی ضرورت ہے۔نیچے یارخون لشٹ سے بریپ تک جتنے بھی اس حوالے سے سہولتیں دینے کی کوشش کی گی ہیں یقینا یہ قابل تعریف ہیں انہیں مزید بہتر بناکے سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں انکی تشہیر کی ضرورت ہے۔