عدالتی رپورٹ
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
ٹیلی وژن چینلوں کے ساتھ ساتھ اخبارات میں بھی عدالتی کاروائی کی رپوٹیں شاءع ہوتی رہتی ہیں ان رپورٹوں کی روشنی میں عوام کے اندرعدالتوں کی ساکھ بنتی بھی ہے متا ثر بھی ہو تی ہے عام آدمی دو باتوں سے بہت زیا دہ متا ثر ہوتا ہے ایک بات یہ ہے کہ ایک عدالت نے کسی ملزم کو گرفتار کرنے کا حکم دیا دوسری عدالت نے اس حکم کو معطل کرکے ملزم کو رہا کر دیا اور دونوں عدالتوں نے اس پر زیادہ وقت نہیں لگایا دوسری بات جوعام آدمی کو متا ثر کرتی ہے وہ یہ ہے کہ عدالتی کاروائی کے دوران جج صاحبان ریمارکس دیتے ہیں یہ ریمارکس میڈیا میں رپورٹ ہوتے ہیں تو عام آدمی کا ذہن کسی ایک فریق کے خلا ف بن جاتا ہے مگر 10سال یا 12سال بعد فیصلہ آتا ہے تو میڈیا میں آنے والے ریمارکس کے برعکس ہوتا ہے عام آدمی حیراں ہوجاتا ہے کہ ججوں نے 10سالوں تک ایک فریق کو رگڑ ا دیا بعد میں اُسی فریق کے حق میں فیصلہ کیسے آگیا
اس کا جواب تو ما ہرین قانون ہی دینگے تاہم میڈیا میں عدالتی کاروائی دیکھنے اور پڑھنے والے عوام کا اتنا حق بنتا ہے کہ ان کے سامنے انصاف ہوتا ہوا نظر آئے کیونکہ یہ عوام کی نظر میں عدالتی ساکھ کا مسئلہ ہے ایک اور بات جو عوام کی نظروں میں کا نٹے کی طرح کھٹکتی ہے وہ بعض مشہور مقدمات کی مسلسل سما عت اور بعض مشہور مقدمات کی سما عت میں مسلسل تعطل ہے مثلاً آج کے اخبارات میں دو رپورٹیں آئی ہیں اسلام اباد کی ایک بڑی عدالت نے 6سال پہلے ایف ایٹ کچہری میں ہونے والی دہشت گردی کے مقدمے کی سماعت اس حکم کے ساتھ ملتوی کردی کہ شفاف ٹرائیل ملزموں کا بنیادی حق ہے اس بارے میں وزارت قانون اگلی پیشی پراپنا موقف پیش کرے عام آدمی سوچتاہے کہ 6سال پہلے 4مارچ 2014کو اسلام اباد کی مصروف کچہری میں دہشت گردوں نے بموں سے حملہ کیا اور فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک جج سمیت 11شہری شہید ہوگئے مقدمہ عدالت میں آیا 6سالوں تک شفاف ٹرائیل کی بات کیوں نہیں ہوئی 6سالوں تک وزارت قانون نے اپنی رائے کیوں نہیں دی اگر وفاقی دارلحکومت کی کچہری میں ججوں، مجسٹریٹوں، وکیلوں اور پیشی بھگتنے والے شہریوں کے خلاف ہو نے والی دہشت گر دی کے مقدمے کی یہ حا لت ہے تو دور پار، تورغر، ملکوال، سانگھڑ، ژوپ یا چترال میں ہونے والی واردات کے مقدمے کا کیا حشر ہوگا
اسی اخبار میں پشاور کی عدالت سے اس نو عیت کی رپورٹ آئی ہے عدالت نے مئی 2018ء میں دائر کئے گئے ہر جا نے کے مقدمے کی کاروائی کے دوران مد عاعلیہ یعنی فریق ثانی کو حکم دیا ہے کہ اگلی پیش پر اپنا موقف عدالت کے سامنے پیش کرے قانون دان یقینا جانتے ہونگے کہ ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا لیکن عوام اس بات پر حیرت زدہ ہو کر رہ جا تے ہیں کہ ڈھا ئی سالوں تک عدالت کیا کر ہی تھی جس طرح دہشت گردی کا مقدمہ فوری تصفیہ چاہتا ہے اسی طرح ہرجانے کا مقدمہ بھی فوری انصاف کا متقاضی ہو تا ہے عموماً تین ماہ بعد عدالت ہر جا نے کے مقدمے کو انصاف کے تما م تقاضے پورے کر کے منظور یا خا رج کر سکتی ہے اس میں فریقین کا بھی فائدہ ہے عوام کی نظروں میںعدالت کا وقار بھی بلند ہو جا تا ہے ڈھا ئی سال گذرنے کے بعد ایک فریق کو اپنا موقف پیش کرنے کا حکم دینا عام آدمی کی سمجھ میں ہر گز نہیں آتا
اگر یہ انصاف کا تقا ضا ہے تو پھر عام آدمی کو یہ بھی سمجھا یا جائے کہ بعض سیا سی مقدمات کے فیصلے پلک جھپکنے میں کسطرح ہو جا تے ہیں 2006ء میں جب عدلیہ بحالی کی تحریک چلی تو ایک تجویز آئی تھی کہ جسٹس حمید ڈوگر کی سر براہی میں ایک عدالت عام مقدمات کی سما عت کر ے جسٹس افتخار چوہدری کی سر براہی میں دوسری عدالت سیاسی اور آئینی مقدمات کی سما عت کرے گو یا سپر یم کورٹ کو دوحصو ں میں تقسیم کیا جائے مگر یہ تجویز آگے نہیں بڑھی اُس وقت کئی مما لک کی مثا لیں دی گئی تھیں جہاں عام مقدمات کے لئے الگ سپریم کورٹ ہے اور آئینی یا سیا سی مقدمات کے تصفیے کے لئے الگ سپریم کورٹ ہے مو جودہ حا لات میں عوام کو عدالتی نظام سے مطمئن کرنے کی دوصورتیں ہیں پہلی صورت یہ ہے کہ ججوں کی تعداد میں اضا فہ کر کے دہشت گردی، ہر جا نہ اور دیگر مقدمات کے فیصلے ایک سال کے اندر کرائے جائیں دسری صورت یہ ہے کہ عدالتی کاروائی کی رپورٹنگ کا نیا ضا بطہ اخلا ق جاری کیا جائے تاکہ عوام کی نظروں میں عدالت کا وقار بلند ہو