دسویں کمیشن کے لئے
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
اخبارات میں دسویں نیشنل فنانس کمیشن کا شہرہ ہے اور شور شرابہ اس بات پر ہورہا ہے کہ بلوچستان کی نمائندگی سندھ کو کس وجہ سے ملی خیبر پختونخواہ کی نمائندگی کے لئے پنجاب سے بندہ کیوں لیا گیا مگر شور شرابے کا کوئی فائدہ نہیں۔ دونوں صوبوں میں وفاق والوں کی اپنی حکومتیں ہیں دونوں حکومتوں نے اپنی نمائندگی کے حق سے دست برداری پر دستخط ،انگھوٹے،مہروغیرہ ثبت کرکے دیدیا ہے ۔ دلیل یہ ہے کہ ہم ایک ہی ملک کے باسی ہیں ،ہماری نمائندگی کے لئے کوئی شخص کسی بھی صوبے سے آئے ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں پاکستان کا خواب دیکھنے کے بعد نیند سے بیدار ہوتے ہی علامہ اقبال نے فارسی میں سوباتوں کی ایک بات کہی تھی۔
نہ افغانیم ونہ ترک وتا تاریم
چمن زادیم وازیک شاخساریم
تمیز رنگ وبو برِما حرام است
کہ ماپروردہ یک نوبہاریم ۔ ۔ ۔
جس طرح ہم علامہ اقبال کے خواب پریقین رکھتے ہیں اسی طرح ہم ان کی بیداری پر بھی یقین رکھتے ہیں ۔ یادش بخیر!شہید بے نظیر بھٹو نے وی اے جعفری کو مشیر خزانہ بنایا تواس پر اعتراض کرنے والوں نے کہا تھا کہ وزیراعظم قومی اسمبلی کی اکثر یتی پارٹی کا اور سینیٹ کے اندر اُن جماعت کے سینیٹروں میں خزانہ کی وزارت کو سنبھالنے کے قابل ایک بھی بندہ کیوں نہیں ملا;238;اعتراض کا جواب قائد ایون کی طرف سے نہیں آیا
ایک قومی اخبار نے اس کا جواب دیا کہ بات قومی اسمبلی اور سینیٹ میں قابل اور اہل افراد کو ڈھونڈنے کی نہیں بات یہ ہے کہ ایک بے روزگار بزرگ کو کسی دفتر میں کھپانے کا مسئلہ تھا بزرگ شہری کو سنہرے بالوں کے ساتھ وزارت خزانہ میں جگہ دیدی گئی اس پر کوئی نکتہ اعتراض یا تحریک استحقاق نہیں بنتا ’’میری حکومت میری مرضی‘‘دسویں نیشنل فنانس کمیشن کا ایسا ہی مسئلہ ہے کچھ لوگوں کو کسی نہ کسی دفتر،کمیٹی ،ٹاسک فورس،ٹھیمیٹک گروپ یاکمیشن میں جگہ دینی تھی وہ لوگ اس کمیشن میں فیٹ آگئے یہ شور کس بات کا ہے;238;اور تم کون ہوتے ہو بیچ میں بولنے والے دسویں کمیشن کی حقیقت یہ ہے کہ اس کمیشن کاکام وسائل کی مساویانہ اور منصفانہ تقسیم ہے اس میں ہرصوبے کا نمائندہ اپنے صوبے کا نقطہ نظر پیش کرتا ہے اور زیادہ سے زیادہ وسائل اپنے نام کروالیتا ہے اگر سندھ اور بلوچستان کے درمیان وسائل میں عدم توازن پایا گیا تو اس کا آسان حل یہ ہے کہ بلوچستان کی نمائندگی سندھ کو دے دی جائے کوئی جھگڑا پید انہیں ہوگابڑا بھائی جو چاہے گا وہی ہوگا اگر خیبر پختونخوا کے مقابلے میں پنجاب کا حصہ غیرمتوازن نظر آیا تو مسئلہ کوئی نہیں پختونخواہ کی نمائندگی کا حق بڑے بھائی کودے دو۔ وہ کوئی سوال ہی نہیں اُٹھائے گا لطاءف اور حکایات کی کتابوں میں خراسان کے دوبھائیوں میں ساجھے کی کاشت کاری کا دلچسپ واقعہ آتا ہے۔
بڑا بھائی گاوں میں رہتا تھا چھوٹا بھائی شہری بابو تھا ساجھے کی زمین تھی مگر چھوٹے بھائی کی اس میں حصہ نہیں ملتا تھا ایک سال چھوٹے بھائی نے جرگہ بلایا جرگہ میں فیصلہ ہواکہ دونوں بھائی ساجھے کی کاشت کاری کرینگے اور فصل دونوں میں برابرتقسیم ہوگی پہلے سال بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی سے پوچھا تم فصل کی جڑیں لے لوگے یاتنا اُس نے کہا میں تنالے لوں گا۔ بڑے بھائی نے آلو کی فصل لگائی تنا چھوٹے بھائی کو دیدیا ۔ جڑیں اپنے حصے میں لے لیا ۔ چھوٹے بھائی نے کہا اگلے سال اس کو سبق سکھاونگا ۔ کاشت کے وقت چھوٹے بھائی نے کہا میں جڑیں لے لوں گا اس سال بڑے بھائی نے گندم کاشت کی ۔ فصل تیار ہوئی تودانہ اور بھوسہ بڑے بھائی کے ہاتھ آگئے،چھوٹے بھائی نے کہا اگلی فصل پر میں اس حرام خور کو سبق سکھاءونگاوہی سوال پوچھا کہ جڑیا تنا;238;چھوٹے بھائی نے کہا تنے کا اوپر والا حصہ جڑ کے ساتھ میرا ہوگا۔ بڑے بھائی نے کہا جو آپ کی مرضی! بڑے بھائی نے اب جوار کی فصل لگائی اناج درمیان میں تھا وہ اپنے حصے میں ڈالا تنے کا اوپر والا حصہ کاٹ کرجڑوں کے ساتھ شہری بابو کو دیدیا یہی حال وطن عزیز میں وسائل کی تقسیم کا ہے1971تک مشرقی پاکستان کی آبادی زیادہ تھی اس لئے وسائل یا رقبے کے لحاظ سے تقسیم ہوئے یا برادری کی بنیاد پر بھی تقسیم ہوئے تاکہ مشرقی پاکستان کو آبادی کے حساب سے زیادہ وسائل نہ ملیں۔ 1971کے بعد فارمولا تبدیل کیا گیا رقبے کو بھی نظر انداز کیا گیا کیونکہ بلوچستان کا رقبہ زیادہ ہے۔
برابری کی بنیاد کو بھی فراموش کردیا گیا کیونکہ بڑا بھائی حصہ بقدر حبثہ نہیں لے سکتا تھا چنانچہ آبادی کو بنیاد بناکر وسائل کی بندربانٹ کا حق بڑے بھائی کودیدیا گیا مگر بڑا بھائی خود کو ہوشیار اور چالاک ظاہر کرنے کے بجائے ملنگ، فقیراور سادہ لو ح ظاہر کرنے پرزور دے رہا ہے۔ شکیسپئیرنے اپنے مشہور ڈرامہ ہیملٹ کے ایکٹ منظر میں سدا بہار ڈائیلاگ دیا ہے۔ ہیملٹ اس منظر میں پہریداروں کے نرغے میں ہے جب پولونیئس سامنے آتا ہے تو ہیملٹ پاگل ہونے کی اداکاری کرتے ہوئے اول فول بکتا ہے۔ پولونیئس اس پر کہتا ہےاگرچہ یہ پاگل پن لگتا ہے تاہم اس میں سلیقہ اورطریقہ ضرور ہے۔
دسویں نیشنل فنانس کمیشن کے معاملے میں وفاق کا طرز عمل ہیلمٹ والا ہے تاہم پولونئیس کو اس میں کوئی سلیقہ نظر نہیں آتا تھوڑے سے جنون میں کوئی عیب نہیں شرط یہ ہے کہ کام کا طریقہ اور سلیقہ درست ہونا چاہیئے ورنہ شہری بابو ساری عمر ہاتھ ملتا رہ جائے گا۔