جمہوریت کا باوا آدم
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضیؔ
جمہوریت کا باوا آدم یورپ ہے مگر یورپ میں جمہوریت اور الیکشن اتنا مہنگا کاروبار نہیں جتنا وطن عزیز پاکستان میں ہے ہمارے اباؤ اجداد نے یورپ سے جمہوریت کا پودا لے لیا یہ پودا وہاں پھل دیتاہے پھول بن جاتا ہے مگر یہاں کانٹوں سے بھر ا ہے
میرے دامن میں کانٹوں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں
فرانس، برطانیہ، جرمنی اور سپین میں انتخابات کے دوران کاروبار زندگی معطل نہیں ہوتا ہر روز جلسے جلوس اور ریلیاں نہیں ہوتیں بلکہ ریڈیو اور ٹیلی وژن پر مباحثے ہوتے ہیں جن میں ہر پارٹی سے مہذب ترین لوگ حصہ لیتے ہیں دلائل کے ساتھ اپنا موقف پیش کرتے ہیں دوسری طرف سے اس کا جواب بھی دلائل کے ساتھ مہذب ترین الفاظ میں دیا جاتا ہے ایک بار برطانوی وزیر اعظم ونٹسن چرچل کے مخالف نے ان کو گالی دی، چرچل نے گالی کا جواب گالی سے نہیں دیا اخبار نویس نے پوچھا آپ نے اینٹ کا جواب پتھر سے کیوں نہیں دیا؟ چرچل نے کہا ’’میری تربیت اُس کی نسبت بہتر ماحول میں ہوئی ہے‘‘ اب پاکستان میں انتخابات سر پر ہیں تو مہذب لوگوں کو سر چھپانے اور کانوں میں روئی ٹھونسنے کی جگہ نہیں ملتی پاکستانی جمہوریت کے مسائل ایک دو نہیں بلکہ چار ہیں جاگیردرانہ کلچر، جمہوری تربیت کا فقدان ، شرح خواندگی کا زوال اور سیاست میں سرمایہ کاری کا بڑھتا ہوا رجحان ایک دوست کا کہنا ہے ’’ یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے پاکستان‘‘ پڑوسی ملک بھارت میں جاگیردرانہ نظام ختم ہوا تو وہاں جمہوریت کو پھلنے
پھولنے کا موقع ملا دلت، شودر اور نچلی ذات کے ہندو بھی برہمن اور پنڈت کے برابر آگئے نچلی ذات کے غریب لوگ وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم بن گئے اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے غریب مگر قابل سیاسی کارکنوں کو صدر اور وزیر اعظم کے عہدوں پر فائز کیا گیا ہمارے ہاں جاگیردرانہ نظام کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوا یورپ، امریکہ اور دیگر جمہوری ممالک میں سیاسی کارکنوں کی تربیت ہوتی ہے ان کو خدمتِ خلق، اچھی نظم و نسق ،قانون سازی اور قوتِ برداشت کی اعلیٰ تربیت دی جاتی ہے وطن عزیز میں سیاسی لیڈر ہوائی گولی اور لوزکینن کی طرح ہوتاہے وہ بلیک میلنگ اور الزام تراشی کرتا ہے گالی دیتاہے اور مخالف کو کسی بھی حال میں برداشت نہیں کرتا، کسی ٹی وی چینل پر دو یا تین سیاست دانوں کا باہمی مکالمہ سُن کر ہمارے سر مارے شرم کے جھک جاتے ہیں کوئی بھی سیاسی جلسہ شریف آدمی کے جانے کے قابل نہیں رہا، کسی بھی سیاستدان کی تقریر شریف آدمی کے سننے کے لائق نہیں رہی انحطاط اور زوال کی یہ پَست ترین سطح ہے شرح تعلیم میں کمی بھی جمہوری کلچر کے فروغ میں ایک رکاوٹ ہے ملک کی 40فیصد آبادی کو بین الاقوامی سیاست، سفارت کاری، معیشت، سماجی تحفظ اور بہتر نظم و نسق کا علم ہی نہیں وہ یا تو جاگیر دار کے کہنے پر ووٹ دیتی ہے یا وہ کسی لیڈر کی زبان سے گالیاں سن کو اُس کو پسند کرتی ہے اُن کے سامنے کوئی اور معیار نہیں ہے مذکورہ عوامل کی وجہ سے سیاست میں دولت کا استعمال روز بروز بڑھ رہا ہے 1970ء میں ایک جلسے یا جلوس پر اگر 10 لاکھ روپے کا خرچہ آتا تھا 2018ء میں ایک درمیانہ درجے کے جلسے پر 50کروڑ روپے کا خرچہ آتاہے یہ پیسہ سیاسی جماعت کا دولت مند ممبر لگاتاہے تاکہ دس گنا کرکے وصول کرے کرپشن بھی یہاں سے شروع ہوتی ہے جلسوں، جلوسوں اور ریلیوں پر پیسہ لگانے والا سرمایہ دار الیکشن میں کامیابی کے بعد کرپشن کے ذریعے اپنا سرمایہ منافع کے ساتھ واپس لیتاہے جمہوریت کے باوا آدم برطانیہ، جرمنی اور فرانس میں کوئی ایسا نہیں کرتا آنے والے انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کو جلسوں، جلوسوں پر پابندی لگانی چاہیئے ریڈیو، ٹیلی وژن، سوشل میڈیا اور اخبارات کے ذریعے مہذب الفاظ میں انتخابی مہم چلانے کی اجازت ہونی چاہیئے اظہار رائے کی آزادی کا یہ مطلب ہر گزنہیں کہ شاہراہوں کو بند کرکے کرایے کے سامعین جمع کئے جائیں جلسے کے لئے سٹیج کی تیاری پر 1970ء میں 10ہزار روپے کا خرچہ آتا تھا۔ اب ایک جلسے کا سٹیج 65لاکھ روپے میں تیار ہوتا ہے جب جمہوریت کا باوا آدم جلسے اور جلوس نہیں کرتا ہماری لنگڑی لولی بے دست و پا جمہوریت کے لئے اس کو کس نے لازم ٹھہرالیاہے؟ اگر عدالت جانے کے اخراجات قابل برداشت ہوتے تو پاکستان کا ہر شہری عدالت سے رجوع کر کے جلسوں اور جلوسوں پر پابندی کیلئے حکم امتناعی حاصل کرتا مگر عدالت کے دروازے پر دستک دینا کسی شریف آدمی کے بس کی بات نہیں اس لئے انتخابات قریب آتے ہی طوفانِ بدتمیزی کا دور شروع ہوتا ہے پاکستانی ووٹر کی قسمت میں کھوٹ ہی کھوٹ ہے بقول سا غر صدیقی
پھول چاہے تھے مگر ہاتھ میں آئے پتھر
ہم نے آغوشِ محبت میں سلائے پتھر