Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

اسماعیلی ہاسٹل چترال

شیرولی خان اسیرؔ

عام طور پرطلبہ کے اقامتی اداروں کی بات نہیں ہوتی جبکہ جس ادارے یعنی سکول ،کالج یا یونیورسٹی میں وہ پڑھ چکے ہوتے ہیں ان کو یاد کیا جاتا ہےحالانکہ ان اقامت گاہوں کا اتنا ہی کردار ہوتا ہے جتنا ان تعلیمی اداروں کا ہوتا ہے۔ ہر طالب علم کے گھر کے نزدیک اسکول، کالج یا یونیورسٹی نہیں ہوتی۔ ایسے طلبہ کے لیے جاۓ رہائش کی بھی اتنے ہی ضرورت ہوتی ہے جتنی تعلیمی ادارے کی۔ اسلامیہ کالج پشاور کے ساتھ رحیم شاہ وارڈ، اورٴینٹل ہوسٹل، چیمسفورڈ ، ہارڈنگ، عثمانیہ ہوسٹل نہ ہوتے تو چترال، سوات، دیر قبائیلی علاقوں غرض پشاور سے باہر کسی بھی طالب علم کو ااسلامیہ کالج پشاور میں پڑھنا نصیب نہ ہوتا۔

جس طرح سابق صوبہ سرحد میں اسلامیہ کالج کے ہوسٹلوں کی اہمیت تھی اور جو آج بھی ہے، بالکل اسی طرح چترال میں اسماعیلی ہوسٹل اور سٹیٹ بورڈنگ ہاوس چترال کی اہمیت تھی۔ 1962 تک اپر چترال یعنی سابق ضلع مستوج میں ایک ہائی اسکول نہیں تھا۔ 1962 میں سٹیٹ مڈل اسکول بونی کو ہائی کا درجہ دیا گیا۔ اگر متذکرہ دو رہائیشی سہولیات میسر نہ ہوتیں تو آج چترال خاص، دروش اور بونی کے سوا باقی علاقوں کے لوگ تعلیم کے زیور سے محروم رہتے اور آج چترال جو پورے صوبے میں کبھی دوسری کبھی تیسری پوزیشن میں ہوتا ہےخواندگی کی شرح کے لحاظ سب سے پیچھے ہوتا۔ خاص کرکے اپر چترال تعلیمی میدان میں سب سے پسماندہ رہ چکا ہوتا۔

اس لیے سابق سٹیٹ ہائی سکول چترال یعنی موجودہ سینٹینئیل ہائی سکول کو پورے چترال کے طلبہ کو تعلیم بہم پہنچانے کا جو اعزاز حاصل ہے اس میں مذکورہ ان دو اقامتی اداروں کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔ سٹیٹ بورڈنگ ہاوس چترال سن پچاس کی دھائی میں قائم ہوا تھا یا شاید اس سے بھی پہلے جس میں محدود تعداد کے طلبہ کو داخلہ ملتا تھا اور جس میں رہائیش پذیر لڑکوں کو ملنے والی خوراک کی حالت بھی کوئی قابل رشک نہ تھی۔ تاہم غربت کے اس دور میں یہ بھی بہت بڑی نعمت تھی۔1953 میں اس وقت کے اسماعیلی لیڈرز مرحومین پیرسید منور شاہ آف چوینج اور پیرسید کرم علی شاہ آف ھرچین لاسپور نے ریاست کے وزیر تجارت مرحوم حیدر احمد خان آف بونی کی قیادت میں چترال خاص میں اسماعیلی ہوسٹل کے لیے زمین خریدی۔ خریداری کے موقع پر ریاست کی طرف سے سفید خان تحصیلدار اف کوجو موجود تھے۔ ان بزرگوں کی نگرانی میں اساعلیہ ہوسٹل اور مسافر خانہ کی عمارت تعمیر ہوئی۔ 1956 میں پہلی دفعہ طلباٴ کو داخلہ دیا گیا۔ ریکارڈز کے مطابق گرم چشمہ کے سینئیر ترین ریٹائرڈ استاذ امیر محمد صاحب ان اولین طلباٴ میں سے تھے۔ جہاں اسماعیلی ہوسٹل نے دور دراز وادیوں کے طلبہ کے لیے اقامت اور خوردو نوش کی مفت سہولت بہم پہنچائی وہاں پر اس کے ساتھ ملحق مسافر خانہ اورجانوروں کا اصطبل سودہ سلف خریدنے چترال آنے والے مسافروں اور ان کے بار برداری کے جانوروں کے لیے مفت کا ٹھکانا بھی مہیا کیا۔ اس زمانے کے لحاظ سے یہ مسافر خانہ مسافروں کیلیے ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھی۔ 1964 میں جب میں مڈل سٹینڈرڈ امتحان کی لیے چترال آیا تو اس ہوسٹل میں ہمیں رہائیش دی گئی۔

میرے والد بزرگوار بحی میرے ساتھ تھے۔ ان کو مسافر خانہ مِیں ٹھہرنے کی جگہ مل گئی اور گھوڑے کو اصطبل میں باندھا گیا۔ پھراسی سال میں نے سٹیٹ ہائی سکول چترال کی نویں جماعت میں داخلہ لیا تو مجھے اس ہوسٹل میں رہائیش کا موقع بھی ملا۔ میرے کلاس فیلوز سید کریم علی شاہ ایڈوکیٹ، سلطان نادر مرحوم اف ریچ نوغور، بلبل بیگ ریٹائرڈ پرنسپل اف بریپ، شہزادہ بہرام ریٹائرڈ سب انسپکٹر پولیس، شیربچہ خان اف چنار مستوج جس نے بعد میں اپنا نام خود عماد الدین رکھا، افضل جان ریٹائرڈ پوسٹماسٹر مستوج، شربت خان ریٹائرڈ پوسٹماسٹر بروک لاسپور، مرحوم گلازارخان اف مردان لوٹکوہ، خدا رحمت ریٹائرڈ ٹیچر لوٹکوہ، صمدگل ریٹائرڈ پرنسپل، مطائب خان ریٹائرڈ وی پی یو بی ایل، سبز علی منیجر، محمد گل مرحوم اف لوٹکوہ، جوان شاہ ریٹائرڈ ٹیچر ریشن، زار خان ریٹائرڈ ٹیچر ارکاری، سید قاسم شاہ ریٹائرڈ ٹیچر بلوغ موردیر اور رحمت غازی خان ریٹائرڈ سیکرٹری لوکل گورنمنٹ میرے ساتھ اس ہوسٹل میں مقیم رہے۔ ان کے علاوہ ہم سے سینئیر طلباٴ میں ژانو خان ریٹائرڈ ٹیچر لون، ڈاکٹراعجازعلی شاہ آف لون، ریٹائرڈ ڈائریکٹراعظم خان نادرہ، ریٹائرڈ صوبیدار گل آباد خان اف پرکوسپ، بلبل آمان ریٹائرڈ پرنسپل بروک لاسپوراورریٹائیرڈ استاد شیرعزیز اف بالیم ہمارے ہوسٹل فیلو رہے ہیں۔

لاسپور سے داد پناہ اور شیراعظم اور گل زرین خان آف پرکوسپ ہم سے جونئیر تھے۔ کچھ دوست اور بھی تھے جن کے نام مجھ سے بھول گئے ہیں۔ بالائی چترال اور لوٹکوہ کے اسماعیلی تعلیم یافتہ طبقے کا نوے فیصد حضرات اس ہوسٹل کے مکین رہے ہیں۔ اس وقت اسماعلیہ ہوسٹل چترال کے سپرنٹنڈنٹ مرحوم کیپٹن امیر خان تھے۔ ان کا تعلق مدکلشٹ سے تھا۔ وہ بڑے قابل آدمی تھے۔ ان کی بڑی روان انگریزی تھی۔ ہمارے ساتھ انگریزی گفتگو کرکے ہماری زبان سدھارنے کی کوشش کیا کرتے۔ ہر وقت کوٹ پتلون کے سوٹ اور ٹائی میں ملبوس رہا کرتے۔ بڑے نفاست پسند شخصیت کے مالک تھے۔ رعب اور دبدبہ والے آدمی تھے۔ انہیں 1965 میں قتل کیا گیا جب وہ اپنی رہائیش گاہ واقع گولدور میں محو خواب تھا۔ ان کی موت اسماعیلی ہوسٹل بلکہ اسماعیلیوں کی تاریخ میں بہت بڑا حادثہ تھی۔ اس تاریک دور کے ایک اعلےِ تعلیم یافتہ شخصیت کا بہیمانہ قتل ناقابل تلافی نقصان تھا جس کا آج بھی مجھے شدید افسوس ہے۔ ان کے قتل کی واردات آج بھی میرے لیے معمہ ہے۔ ان کی شہادت کے بعد چپاڑیو لال صاحب نوازخان ہمارے انچارج ہوئے۔ ہمارے سیشن کے ختم ہونے کے بعد یکے بعد دیگرے مرحوم فدا حسین اور لیاقت علی ہوسٹل کے سپرنٹنڈنٹ رہے۔

علم کے متلاشیوں کی یہ پناہ گاہ 26 سال غریب طلبہ کو اپنی گود میں پالنے کے بعد سن انیس سو بیاسی میں مذہبی انتہا پسندی کا شکار ہوکر اپنی ایک عظیم لائیبریری سمیت نذر آتش ہوا۔اس وقت ہمیں ایسا لگا جیسا کہ اپنا پیارا پیدائشی گھر جل گیا ہو۔ اس میں کیا شک کہ جو مکان ہزاروں غریب طلبہ کے حصول علم کے لیے محفوظ رہائیش اور کھانا پینا مہیا کیا ہو اس کی حیثیت ان طالبان علم کیلیے گھر جیسی ہی ہوتی ہے۔ آج جب بھی اس مقام سے میری گزر ہوتی ہے جہاں یہ ہوسٹل کھڑا تھا تو اس کی زندہ فلم میرے شعور کے پردوں پر جلوہ گرہوتی ہے اور دل سے آہ بھری آواز آتی ہے یہ تو وہی جگہہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے

You might also like
7 Comments
  1. Al Arslan Khwaja says

    demolition of the Ismaili Hostel by a mob was a tragic and turning event in the history of Chitral. Most people of the area and even the participant might not know the reasons properly. Eventually, a Mullah discussing some religious point that differed in the Sunni Ismaili theology was beaten up by some people of Buni that irritated people of lower Chitral and they moved towards the said hostel to make agitation and vacate it of the people of upper Chitral. Seeing the mob nearing the hostel a man armed with a .22 gun from inside the hostel and another government officer with a .303 Gorai rifle from across the river i-e officers colony Denin started shooting at the mob. seeing their fellow men being shot the mob turned furious and then what happened is not needed to be narrated but one thing is essential and that is this that difference of mind set up and religious theory of communities is giving political and financial benefit to some selfish elements who use the monopoly of religion as their token of success.

  2. Dr. Khalil says

    I don’t think it is right time to discuss some flammable incident in the mid Rmadan ,, There is right time for remembrance. The sympathetic worlds towards the building could be irritating for those who have lost their loved ones in the said tragedy. Obviously it was the only place where number of Ismaili students coming from far flung areas of chitral were residing .. but some people don’t even like to listen about any thing related to the said incident. We must think to make our future batter instead. The remembrance of the black day of 1982 and the forced conversion of Ismailis by Ex-Mehtar of Chitral gives us nothing more than sorrows and refresh the wounds on both sides.

  3. shams says

    Good memories. There were political motives behind the incidence where this hostel was demolished. The memories of 1982 incidence is still alive in the mind of both sects suni and ismaili, but it was not a fault of both sects. This disturbance was created through a well planned mission.

  4. Sohail ahmad says

    Nice written lal

  5. Zahir Uddin says

    Salute to you Sir. Good people never forget even a glass of water or a cup of tea offered by someone with sincerity.Sow can we forget the gigantic and unforgettable work that helped in carrying out the first world of Kalam Ilahi(IQRA).

  6. Inayatullah Faizi says

    Good attempt.Sweet memories. Two corrections, one, Peer Marahmat Shah instead of Karam Ali Shah, Rahmat Azam instead of Sher Azam.

    1. Sher Wali Khan Aseer says

      Thank you for correction, Faizi sahib.

Leave a comment

error: Content is protected!!