Unscrupulous elements start looting spree
چترال (محکم الدین) برفباری سے فائدہ اُٹھاکر موقع شناس لوگوں نے چترال کے عوام کو لوٹنا شروع کر دیا ہے ۔ قدرت جہاں مختلف آفات میں گیر کر چترال کے لوگوں کا سلسل امتحان لے رہا ہے وہاں مشکل کی ان گھڑیوں میں ہمارے معاشرے کے کئی طبقات ناجائز منافع خوری کو ا پنا معمول بنا لیا ہے اور یہ طبقات اپنے اس ظالمانہ طرزعمل کو اسلام اور قانون کے خلاف تسلیم کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ۔ چترال میں برفباری کیا ہوئی۔، ٹیکسی ڈرائیوروں ، دکانداروں ، سبزی فروشوں ، مرغی فروشوں ، سلنڈر گیس فروخت کرنے والوں اور ہوٹل کا کاروبار کرنے والوں کی چاندی ہو گئی اور لگاتار چترال کے بیچارے شہریوں کا خون چوسا جا رہا ہے ۔ وجہ یہ بتایا جاتا ہے کہ برفباری کے سبب سڑکیں خراب ہو گئی ہیں اس لئے سابقہ کرایہ پر گاڑی چلانا ممکن نہیں ۔ تیل اور دیگر اخراجات برف کی وجہ سے زیادہ ہو رہے ہیں ۔ یوں برفباری کے دوران چترال شہر سے ایون تک 250روپے فی سواری چترال سے دروش 600روپے اور چترال سے بونی ، مستوج ، تورکہو ، موڑکہو جہاں تک گاڑی جاتی ہے ۔ من مانی کرایہ وصول کیا جاتا ہے ۔ جو کہ سابقہ کرایہ کے مقابلے میں 200فیصد سے 1000فیصد زیادہ ہے ۔ ایک طرف لوگ مشکلات سے دوچار اور دوسری طرف لوٹنے کا عمل جاری ہے ۔ لیکن ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ ٹیکسی والے جو انتظامیہ کے مقرر کردہ کرایہ نامہ کو جوتی کی نوک پر پہلے ہی ٹھو کر مارچکے ہیں ۔ اب مزید ڈھٹائی سے لوگوں کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور باز پرس پر سواریوں کے ساتھ بد تمیزی ان کا معمول بن گیا ہے ۔ اسی طرح مرغی فروشوں نے فی مرغی پر 50سے 80روپے تک اضافہ کر دیا ہے ۔ سبزی کی قیمتیں بھی برفباری کی وجہ سے ڈبل ہو چکی ہیں ۔ اور سلنڈر گیس پر فی کلو 15سے 20 روپے ا ضافی رقم لی جاتی ہے ۔ ٹیکسی ڈرائیوروں ، دکانداروں ، مرغی فروشوں ، سبز ی فروشوں اور دیگر اجناس فروشوں کی طرف سے قیمتوں میں ہوشربا اضافہ دیکھ کر یوں لگتا ہے ۔ کہ چترال میں انتظامیہ نام کی کوئی چیز موجود نہیں ۔ ہر ایک اپنی مرضی کا باد شاہ بنا ہوا ہے ۔ عوامی حلقوں نے انتظامیہ کی اس بے حسی پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا ہے ۔ او کہا ہے ۔ کہ عوام پر ہونے والی یہ زیادتی انتظامیہ کی مصلحت پسندی اور کمزوری کا نتیجہ ہے ۔ انہوں نے انتظامیہ سے اس حوالے سے سخت ترین کاروائی کامطا لبہ کیا ہے ۔
محکمالدین صاحب نے بہت ہی آہم مسلہ چترال انتظامیہ کے سامنے کھول کر رکھا ہے۔ ہمارے دکاندار اور ٹرانسپورٹرز نے ہر مشکل کے موقع پر غریب عوام کو لوٹا ہے۔ ایک طرف سڑکوں کی بندش اور قدرتی فاٹ انہیں گھیر لیتی ہیں تو دوسری طرف ان کے اپنے بھائی بندے ان کی کھال اتارنے میں اپنی ساری طاقت اور حربے استعمال کرتے ہیں۔ سرکار خاموش تماشائی بنے بیٹھی ہوتی ہے۔ مجھے بنفس خود سینکڑوں مرتبہ اپنے ٹیکسی والوں کی کند چھری کا شکار ہونا پڑا ہے۔ 2006 میں سیلاب کی نذر ہونے کے بعد2010 تک یارخون کا واحد رابطہ پل یعنی کھوتانلشٹ کا پل دوبارہ تعمیر نہ ہوسکا۔ اس دوران یارخون کے تیکسی ڈرائیوروں نے یہاں کے غریبوں کا خون تک نچوڑ کر پی لیا تھا۔ اس طرح ماضی میں “تو” روڈ لمبے عرصے تک ٹریفک کے لیے بند رہتا تھا تو اسی قسم کا ظلم روا رکھا جاتا رہا۔ مجال ہے کہ اس وقت کی حکومت کے کانوں پر جوں تک رینگی ہو۔ یہ سارا کچھ ہماری”شرافت” کا نتیجہ لگتا ہے ورنہ ہماری جگہ کوئی اور ہوتے تو توڑپھوڑ کا راستہ اپنا کر انظامیہ اور تیکسی ڈرائیوروں سمیت ان سب کا قبلہ درست کرتے جو ان مشکل حالات سے فائدہ اٹھاکر ظلم کی انتہا کرتے ہیں اور چترال والوں کی خون پسینے کی قلیل کمائی اپنی جیبوں میں بھرتے ہیں۔ چترال اور دیر کی ضلعی انتظامیہ کو اس آہم عوامی مسلے کو حل کرنا چاہیے اور اپنی موجودگی کا احساس دلانا جاہیے۔