دریا ئے چترال پر 12 ڈیم
Dr Inayatullah Faizi[/caption] افغانستان کے اندر تعمیر ہونگے ان ڈیموں کی فیزیبلیٹی افغان حکومت نے تیار کی ہے عالمی بینک سے افغان حکومت سے رجوع کیا ہے اور عالمی بینک کیساتھ معاہد ہ بھی افغان حکومت نے کیا ہے بقیہ رقم بھارت اور افغانستان کی حکومتیں ملک کر فراہم کر رہی ہیں عالمی بینک کی طرف سے مزید سرمایہ کاری متوقع ہے ہماری حکومت ابھی دریا ئے چناب پر پاکستان کا دو کروڑ کیو بک فٹ پانی روکنے کے لئے سندھ طاس معاہد ے کی خلاف ورزی کر تے ہوئے دریا ئے چناب پر 3 بڑے ڈیموں کے لئے عالمی بینک کی طرف سے یک طرفہ طور پر کاربن کریڈٹ سر ٹیفیکٹ جاری کر نے اپنا احتجاج ریکارڈ پر لانے کی کوشش میں کامیاب نہیں ہوا تھا کہ دریا ئے چترال پر 12 ڈیموں کی تعمیر کے لئے عالمی بینک نے سات کروڑ ڈالر افغان حکومت کو دیدیے مسئلے کاسب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ گذشتہ 69 سالوں میں پاکستان کی حکومت نے دریائے چترال پر اپنا حق یا اپنا حصہ تسلیم کرا نے کے لئے افغانستان کے ساتھ کوئی معاہد ہ بھی نہیں کیا ایسا کوئی معاہد ہ زیر غور بھی نہیں ہے اور آئیندہ 10 سالوں میں ایسا معاہدہ ہونے کا امکان بھی نہیں ہے یہ 18 سال پرانی بات ہے اس زمانے میں پن بجلی ، ڈیم اور پانی کی تقسیم کا کوئی سسٹم نہیں تھا چترال کی ریاست اور افغانستان کی حکومت کے درمیان دریائے چترال کے راستے چترال سے عمارتی لکڑی کے سیلپر برآمد کر کے پشاور لے جانے کا معاہد ہ ہوا تھا یہ 1937 ء کاذکر ہے مہتر چترال ہز بائی نس محمد ناصر الملک نے اپنے بھائی شہزادہ محمد حسام الملک کی سربراہی میں ایک وفد بھیجا وفد کو دالا مان کابل میں ٹھہر ایا گیا اپریل سے اگست تک چار مہینوں کے مذاکرات میں کئی بار تعطل پیدا ہوئے پھر بات آگے بڑھی اگست 1937 ء میں معاہد ہ ہوا جس کے تحت افغان حکومت نے دریا ئے چترال پر ریاست چترال کا حق تسلیم کیا اور دریا ئے چترال کے راستے عمارتی لکڑی کی تجارت کا معاہد ہ کیا معاہدے میں تجارتی مال کو بحفاظت پشاور پہنچانے کی ذمہ دار ی افغانستان کی حکومت نے قبول کر لی قیام پاکستان کے دو سال بعد 1949 ء میں دریا ئے چترال کے راستے عمارتی لکڑی کی راہد اری کے اس معاہد ے کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا معاہدہ ختم نہیں ہوا حکومت پاکستان کی عدم دلچسپی کے باعث اس پر عمل در آمد کا سلسلہ بند ہوا ہماری حکومت اتنا کام بھی نہ کر سکی جوایک چھوٹی سی ریاست نے کابل کی حکومت سے دریا ئے چترال میں اپنے حصے کا حق تسلیم کر انے کے لئے کیا تھا اب بھی ریاست چترال کے ساتھ اگست 1937 ء میں ہونے والا نئے آبی معاہد ے کی بنیادبن سکتا ہے لیکن یہاں ریسرج کون کرتا ہے؟ لا ئبریر ی سے استفاد ہ کرنے کا خیال کس کو ہے ؟ پرانے ریکارڈ کی چھان بین کون کرسکتا ہے؟ یہاں حکمرانوں کو ڈی ایس آر ( ڈیلی سیچویشن رپورٹ) پڑھنے کی فہرست نہیں ہے پلاننگ کمیشن قبرستان میں تبدیل ہوچکا ہے واپڈا کو اژ دہا نے نگل لیا ہے یہ کرپشن کا اژدہا ہے صوبائی حکومت کو یہ بھی معلوم نہیں کہ پشاور میں جس دریا کو دریا ئے کابل کا نام دیا جاتاہے یہ دریا ے چترال کا ہے پاکستان کے شمال مشرق میں چیانتر گلیشئر سے یہ دریا نکلتا ہے 400 کلومیٹر چترال کے اندر شمال سے جنوب کی طرف سفر کرتاہے راستے میں 32 معاون ندیو ں کو اپنی آغوش میں لیکر آرنا وی (ارا ندو ) کے مقام پر افغانستان کے ولا یت کنٹر میں داخل ہوتا ہے کنٹر اور ننگر ہا ر کی دو لا ویتوں سے گذر کر مہمند ایجنسی میں واپس پاکستان کے اندر داخل ہوجاتاہے اور ورسک کے مقام پر وادی پشاور کو اپنا جلوہ دکھاتا ہے اگر دریا ئے چترال پر کنٹر اور ننگر ہار کی والایتوں کے اندر 12 ڈیم بنائے گئے تو افغانستان کو کم از کم 20 ہزار میگا واٹ بجلی ملے گی اورایک محتاط اندازے کے مطابق 15 ہزار جریب بنجر ز مین زیر آگ آئیگی یہ بات قابل ذکر ہے کہ کنٹر اور ننگر ہار کی زمینات بہت زرخیز ہیں یہاں انگو ر، اخروٹ ، انار ، سیب ار ناشپاتی کے باغات لگائے گئے اور افغان حکومت کی برآمدات میں دوگنا اضافہ ہوگا اور افغان حکومت اس امر سے اچھی طرح باخبر ہے پشاور اسلام اباد اور کوئٹہ کے سینئر صحافیوں کو معلوم ہے کہ 2002 ء سے 2016 ء تک 14 سالوں میں افغانستان کے اندر سرکاری نظم ونسق 1953 ء کے جا پان کی طرح منظم ہوا ہے جس طرح دوسری جنگ عظیم میں جاپان کی بربادی کے بعد جنرل ملک آرتھر نے جاپان کو نظم و نسق اور کاروبار مملکت کا نیا ڈھانچہ بنا کر دیا تھا اس طرح 2002 ء کے بعد آنے والے دور میں زلمے خلیل زاد ، حا مد کر زئی اور ڈاکٹر اشرف غنی نے اپنی ٹیم کو لیکر افغانستان کو نظم و نسق کا بہترین ڈھانچہ فراہم کیا ہے پشاور یونیورسٹی ، ایر یا سٹڈی سنٹر (سنٹر ل ایشیا ) اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کو اس پر باقاعد ہ ریسرچ کر نے کی ضرورت ہے کہ 14 سالوں میں افغانستان کا نظم و نسق کس طرح بہتر ہوا یہ کامیابی کی حیر ت انگیز ہے امریکہ اور بھارت اس وجہ سے افغان حکومت کے ساتھ مدد کر رہے ہیں کہ ان کی امداد ضائع ہونے کا خدشہ نہیں ہے ایران اور چین بھی افغانستان کے اندر تعمیروترقی میں اس لئے دلچسپی لے رہے ہیں کہ ان کو افغانستان میں نظم و نسق کے نظام پر پورا اعتماد ہے پاکستان کی صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے یہی وجہ کہ افغانستان نے دریا ئے چترال پر 12 جگہوں پر بڑے برے ڈیم بنا کر وادی پشاور کو سیراب کرنے والا بند کرنے کا منصوبہ بنا یا ہے یہ قابل عمل منصوبہ ہے اس منصوبے سے پاکستان اور خیبر پختونخوا کو جو نقصان ہوگا اس کا گلہ ہمیں کابل کی حکومت یا عالمی بینک یا امریکہ اور بھارت سے کر نے کے بجائے اپنے گریباں میں جھا نکنا چاہیے 1964 ء میں حکومت نے چترال میں 7ڈیموں کا منصوبہ تجویز کیا تھا اس پر کام نہ ہو سکا 1984 ء میں جرمن انجینئر وں کی ٹیم نے 34 مقامات پر پن جبلی گھروں کی تجویز دی ان پر کام نہیں ہوگا 2012 ء میں صوبائی حکومت نے چترال میں 6 مقامات پر بڑے بجلی گھروں کی فیز یبلیٹی تیار کروائی 69 میگاواٹ کے لاوی پراجیکٹ کا ٹینڈر بھی ہوا 2013 ء میں کام روک دیا گیا جی ہاں ! یہ لمحہ فکریہ ہے عالمی بینک کے تعاؤ ن سے سے دریائے چترال پر اگلے 10 سالوں میں 12 ڈیم تعمیر ہونگے ان میں ایک بھی چترال یا پشاور میں نہیں ہگا سارے کے سارے ڈیم افغانستان میں ہونگے]]>