شریف خطاب فرما رہے تھے۔ لوگ اس وقت بہت غریب تھے، لوگوں کو اس وقت سچ مچ اردو نہیں آتی تھی، پوری وادی میں کوئی کالج نہیں تھا تو اردو کہاں سے سیکھتے، لیکن بھٹو صاحب نے لوگوں سےیہ نہیں پوچھا کہ اردو کس کس کو آتی ہے۔ انہوں نے اربوں روپے کے لواری ٹنل منصوبے کا اعلان کیا لیکن لوگوں سے یہ نہیں پوچھا کہ ایک ارب میں کتنے صفر ہوتے ہیں۔ انہوں نے بس لوگوں کو اپنا سمجھا، جو کچھ ان سےہوتا تھا کر دیا جو کر نہیں سکتے تھے کرنے کا وعدہ کیا، لوگوں سے گھل مل گئے، ڈھول کی تھاپ پر رقص کیا اور واپس تشریف لے گئے۔ اس کے بعد حالات بدلے ، بھٹو کو پھانسی ہوئے، پیپلز پارٹی کا نام لینا بھی پاکستان میں جرم بن گیا لیکن چترال کے لوگوں نے بھٹو اور ان کی خدمات کو نہیں بھولے، جب بھٹو خاندان پر ہر طرف سے پاکستان کی زمین تنگ کر دی گئی تھی اس وقت نصرت بھٹو صاحبہ کو چترال کے لوگوں نے پارلیمنٹ تک پہنچایا۔ بھٹو سے محبت اور پیپلز پارٹی سےلگاؤ کے باعث چترال کو منی لاڑکانہ کا خطاب ملا۔ آج بھٹو کے وارثوں کے کرتوتوں کی وجہ سے پیپلز پارٹی لاڑکانہ میں بھی آخری سانسیں لے رہی ہے لیکن پاکستان کے آخری کونے سے آج بھی صوبائی اسمبلی کی دو سیٹیں پیپلز پارٹی کی ہیں۔ بھٹو کو ان کے خاندان کو اور ان کی پارٹی کو چترالیوں نے اتنی دیر سے کیوں دل سے لگائے رکھا ہے؟ کیا اس لیے کہ بھٹو نے لواری ٹنل پر کام کا آغاز کیا تھا، کیا اس لیے کہ بھٹو نے چترال میں سڑکوں کی جال بچھائی تھی؟ کیا اس لیے کہ بھٹو نے چترال کے باسیوں کو ٹیکس کی معافی دی تھی؟ جی نہیں، چترال کے لوگوں کے دل میں بھٹو کے لیے یہ عزت صرف اس لیے ہے کہ بھٹو نے چترالیوں کو عزت دی تھی۔ انہوں نے غریب ولاچار چترالیوں کی عزت نفس کو مجروح نہیں کی بلکہ ان میں گھل مل گئے اور برطانیہ کے تعلیم یافتہ، ملک کے وزیر اعظم، غریب اور ان پڑھ لوگوں میں ایسے گھل مل گئے کہ وہ سب خود کو بھٹو سمجھنے لگے۔ آج بھی سندھ سے کوئی بھٹو نکلے یا نہ نکلے چترال کے ہر گھر سے ایک بھٹو نکلتا ہے۔ پھر اکیسویں صدی کے قریب چترال کے اسی پولو گراؤنڈ کے اسی تخت پر میاں نواز شریف تقریر کرتے ہوئے پائے گئے۔چترال کے لوگ تب تک تعلیم یافتہ ہوگئے تھے۔ اردو، انگریزی سے آشنا، ملکی معاملات سے با خبر اور کسی حد تک صوبے کے تعلیم یافتہ ضلعوں میں چترال کا شمار ہونے لگا تھا۔ وزیر اعظم نے چترال کے لوگوں کے لیے چند کروڑ کے منصوبوں کا اعلان کیا، لوگوں نے تالیاں بجائیں، لیکن میاں صاحب شاید ان کی تالیوں سے مطمئن نہیں تھے، کہنے لگے کیا آپ کو معلوم ہے ایک کروڑ میں کتنے صفر ہوتے ہیں۔ تالیاں تھم گئیں ، لوگوں کی آپس میں چمی گوئیاں ہونے لگیں، اور جلسہ گاہ سے لوگ ایک ایک کر کے رخصت ہونے لگے۔ میاں صاحب نے چترال کے لوگوں کو اتنا جاہل اور ان پڑھ سمجھ لیا تھا کہ ان کو کروڑ اور ارب میں فرق سمجھانے لگے تھے۔ لیکن ان کو پتہ نہیں تھا کہ یہ جاہل اور ان پڑھ نظر آنے والے لوگ بھوکوں مر سکتے ہیں لیکن اپنی تحقیر برداشت نہیں کر سکتے۔ چند سال اور گزر گئے، اب کی بار پولو گراؤنڈ کی جگہ چترال سکاؤٹس اسٹیڈیم میں لوگ جمع تھے، صدر پرویز مشرف تشریف لا رہے تھے جنہوں نے لواری ٹنل پر دوبارہ کام کا افتتاح کرنا اور شندور میلے میں بھی شرکت کرنی تھی۔ میں تب کالج کا اسٹونٹ تھا اور ان ہزاروں لوگوں میں شامل تھا جو پرویز مشرف کی تقریر سننے کے لیے جمع تھے۔ حالات اب پہلے جیسے نہیں تھے، ملک میں دہشت گردی کا آغاز ہو چکا تھا، پرویز مشرف بلٹ پروف گاڑیوں اور پلٹ پروف دیواروں کے پیچھے رہنے پر مجبور تھے ، صدر کی تقریر کے لیے بلٹ پروف ڈائس بھی خصوصی طور پر پشاور سے چترال پہنچا دیا گیا تھا۔ صدر مشرف اسٹیج پر تشریف لائے، بلٹ پروف ڈائس کو دیکھا، اور حکم دیا کہ چترال کے پر امن لوگوں سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں ، میں ان سے براہ راست بات کرنا چاہتا ہوں یہ ڈائس ہٹا دیا جائے، پنڈال تالیوں سے گونج اٹھا اتھا ۔ صدر نے اس وقت آٹھ ارب روپے کے لواری ٹنل منصوبےکا اعلان کیا، وہاں سے شندور پہنچے، پولو کا میچ دیکھا، چترال کی ٹیم جیت گئی، لوگ خوشی سے رقص کرنے لگے تو صدر بھی تمام تر پروٹوکول کو بالائے طاق رکھ کر پولو گراؤنڈ کے وسط میں لوگوں کے درمیان پہنچ گئے اور ڈھول کی تھاپ پر رقص کر کے چترال کی جیت کا جشن منایا اور پھر،،، چترال کے لوگ پرویز مشرت کے دیوانے ہوگئے۔ چترالیوں کو ان کا دوسرا بھٹو مل گیا تھا۔ حالات بدلے، حکمران بدلے ، پرویز مشرف پر پاکستان کی زمین تنگ ہوگئی، پاکستان میں ان کا نام لینا جرم بن گیا، ان کی پارٹی آج کے شیخ رشید کی پارٹی جیسی ہوگئی، لیکن ،،، چترال کو لوگوں نے ایسے حالات میں بھی پرویش مشرف کے امیدوار کو اسمبلی پہنچا دیا۔ پورے پاکستان سے پرویز مشرف کو واحد ایم این اے چترال سے ملا تھا اور یہ چترال کے لوگوں کی طرف سے پرویز مشرف کے لیے تحفہ تھا۔چترال کے لوگوں کی پرویز مشرف سے یہ والہانہ محبت صرف اس لیے تھی کہ وہ سب کو چترا ل کے لوگوں سےتہذیب و اقدار سیکھنے کا مشورہ دیتے تھے۔ آج چترال ایک تعلیم یافتہ ضلع مانا جاتا ہے، تعلیم کے لحاظ سے صوبے کے ٹاپ تھری اضلاع میں شمار ہوتا ہے، جہاں ملک کے کئی اضلاع میں تعلیم کی شرح 25 سے تیس کے درمیان ہے وہاں چترال میں شرح تعلیم 80 فیصد کےقریب ہے اور پورے چترال میں ایسا کوئی بچہ نہیں ملے گا جو سکول سے باہر ہو ۔ چترال بدل گیا، چترال کے حالات بدل گئے اور اگر نہیں بدلی تو وہ ہمارے موجودہ وزیر اعظم نواز شریف کی ذہنیت، 18 سال پہلے وہ ہمیں کروڑ میں صفروں کی تعداد بتا رہے تھے اور آج ان کو اس بات کی خوشی ہے کہ چترال کے لوگوں کو اردو آنے لگی ہے۔ وزیر اعظم کے ایک جملے نے ان کے پچاس ارب کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ چترال کی تاریخ میں کبھی اتنے منصوبوں کا اعلان نہیں ہوا جتنا گزشتہ ایک سال میں میاں نواز شریف نےکیے ہیں۔ بھٹو اور مشرف نے چند ارب کے منصوبوں کا اعلان کرکے اور چترال کے لوگوں کی عزت افزائی کر کے امر ہوگئے جبکہ نواز شریف پچاس ارب کے منصوبوں کا اعلان کرنے کے باوجود چترال کے لوگوں کے سامنے اپنی توقیر نہ بڑھا سکے۔ آج چترال کے لوگوں کو پچاس ارب کے منصوبوں پر کوئی خوشی نہیں ، وہ وزیر اعظم کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے یہ کہنے پر مجبور ہیں،، ہم کو پیسے نہیں صاحب، احترام چاہیے۔۔]]>
Zakirea sahib ur right.As other friends commented I agree with them.MNA Chitral is our national representative he played a very bad rôle.
The people of Chitral carry a great and humble character. Although I am not a chitrali and do not speak khowar, but I still try to always learn a few words. Because I really value the tradition, culture and hospitality of the people Chitral and their everlasting commitment to the friends they make. PM should apologies for his speech and try to go down and mingle with the people. They really don’t want money they just want respect. The literacy rate of Chitral is amongst the best in the world, children travel on foot through the mountains for hours to reach school and it’s really great that they can maintain such literacy even in such tough conditions. BOGHE NAWAZ BOGHE
I am a highly educated Chitrali person. Truly speaking I dont know how many Zero’s are there in one crore or in one Arab, and my Urdu proficiency also not good. I dont know what people of Chitral and PM Nawaz Sharif say about me, as they may have proud of being remembering numbers and speaking Urdu. Being a “Tor” Chitrali I think Chitrali peoples can not remember such numbers as they not deal with such numbers in their daily life and they dont have interest in that. BTW despite we are not competent in remembering numbers and not good to understand Urdu, Mr PM have no right to ask the poor mass, that are awaiting basic reforms in their lives since they born. This is an unethical act of a PM. He should immediately apologise that his act of asking such question was unethical and unnecessary.
Nawaz Sharif ne to chitrali awam ki tazlil ki hai.or Jo uska saat dene k liye lota bana hai WO to apne anjam ko election me punchega.
An excellent analysis. Keep up the good work buddy.
زکریہ ایوبی صاحب یہ بھی لکھا ہوتا کہ جس نے ۲۰۱۳ کے انتخابات میں پرویز مشرف کے نام پر ووٹ لے کر اسمبلی پہنچا تھا اج میاں نواز شریف کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں اخر ایسا کیوں ہے؟؟؟
کریم اللہ صاحب یہ تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہم نے وہ ووٹ مشرف کے نام پر دیے تھے۔ اب جبکہ ہمار لیڈر لوٹا واقع ہوا ہے تو اس میں ہمارا کیا قصور۔ اگلے الیکشن میں ان کو سبق یاد کرانے کی ضرورت ہے۔
احترام بھیک میں نہیں ملتا بلکہ اپنے لیڈروں کے کردار کے ذرئیے کما یآ جاتا ہے. باقی آپ خود دیکھ لیں.
جو لیڈرز مشرف کے نام پر لے گئے ووٹوں کو نواز شریف کے قدموں میں دھیر کر دیے وہ اپنا انجام اگلے الیکشن میں دیکھیں گے۔