اور طاہرہ مرگئی

اساتذہ کا بچوں پر تشدد ہر صورت قابل قبول فعل نہیں ہوسکتا مگرتشدد اور سزا دونوں کو ہمیں الگ الگ نظر سے دیکھنا پڑے گا ورنہ ہمارے معاشرے میں تو قاتل بھی آزاد پھر رہے ہیں، چترال میں ہر طرف نظر دوڑائیں تو آپ کو ایسے لوگ اعلی عہدوں پر بیٹھے نظر آئیں گے جو ایسے اساتذہ کے شاگرد رہے ہیں جن کے نام کے ساتھ سزا کا خوف آج بھی ان لوگوں کو اپنے اساتذہ کے سامنے سر جھکا کر رکھنے پر مجبور کرتی ہے کچھ حد تک اس بات کا بھی یقین ہے کہ ہمارے صوبائی وزیر تعلیم بھی ایسے اساتذہ کے زیر سایہ تربیت یافتہ ہوں گے جو بچوں کے مستقبل کی بہتری کے لئے سزا کو جائز سمجھا کرتے تھے۔

بچوں کی سزا کا جہاں تک تعلق ہے ہمیں اس سلسلے میں دو انتہاؤں میں رہنے کے بجائے میانہ روی اختیار کرنا ہوگا، وہ یورپ جو ہمیں سکھا رہا ہے کہ بچوں پر تشدد نہیں کرنا چاہئے وہ خود سکولوں میں جسمانی سزا کے قانون کو دوبارہ لاگو کرنے پر شدت سے غور کررہے ہیں وہ لوگ دہائیوں پہلے جسمانی سزا کو اپنے تعلیمی اداروں سے ختم کرچکے ہیں، عدم تشدد کے نظام کو لاگو کرکے دیکھ چکے ہیں پھر کیا بات ہے کہ وہ خود پرانے سزا و جزا کے نظام کو دوبارہ لاگو کرنا چاہتے ہیں، اس سے بھی حیرت انگیز بات یہی ہے کہ جس نظام سے وہ تنگ آچکے ہیں وہ نظام ہمارے معاشرے میں رائج کرنا چاہتے ہیں، ہمیں اس سلسلے میں تحقیق کرنی چاہئے تحقیق کا نام سن کر ہی ہمیں موت پڑتی ہے، کجا کہ ہمارے فیصلہ ساز کچھ بھی بولنے سے پہلے کم از کم گوگل پر سرچ ہی کرکے دیکھ لیں کہ دنیا کہاں جارہی ہے، ہم کہاں جارہے ہیں، کسی بھی قانون، ثقافت، طرز معاشرت اور طرز زندگی کو قبول کرنے سے پہلے اس کے بارے میں مکمل معلومات کا ہونا سب سے اہم ترین ہوتا ہے

ہمیں جہاں چار پیسے جہاں نظر آئیں وہی ہمارا قانون بن جاتا ہے اگر آئی ایم ایف کہہ دے کہ ادارے بیچ دو ہم بیچ دیتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ ادارے بیچنے کے بعد آئی ایم ایف سے لیا گیا قرضہ کیسے واپس کریں گے، کمائیں گے کیسے، ہم آج بلکہ ابھی کا وقت گزارنے والے لوگ ہیں کل کے بارے میں سوچنا بھی اپنے اوپر حرام کرچکے ہیں، پوری دنیا میں فیل سسٹم کو اپنے ملک میں رائج کرنا از بس ضروری ہے، مگر کیوں! اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ جس معاشرے میں سزا و جزا کا تصور ختم ہوجائے وہ معاشرہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے

مغربی معاشرے اور مشرقی معاشرے میں زمین آسمان کا فرق ہے اور رہے گاہم ایسی چیزوں کے پیچھے کیوں بھاگ رہے ہیں جس سے ہمارے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے، معاشرے کو سدھارنے کی کوئی سعی ہم سے کبھی کارگر نہیں ہوا کرتی یا پھر ہم معاشرے کو سدھارنا چاہتے ہی نہیں،کیوں ہم دوسروں کی اندھی تقلید کو زندگی کا مقصد بنالیتے ہیں کھلی آنکھوں مکھی نگلنا کہاں کا انصاف ہے، کیا ایسے لوگ ہماری رہنمائی فرما سکتے ہیں جن کو خود نہیں پتا کہ وہ اصل میں کرنا کیا چاہتے ہیں۔ ہمارے وزیر تعلیم کو بچوں کو سزا دینے والا استاد تو نظر آتا ہے وہ بھی چترال جیسے دور افتادہ علاقے میں، مگر اسی علاقے میں وزیر تعلیم کے ایک کلاس فور کی وجہ سے سکول کے اندر خودکشی کرنے والی بچی طاہرہ نظر نہیں آتی، طاہرہ نے ہمارے معاشرے کو دسمبر 2015 میں بتایا تھا کہ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، ان کو ذہنی اور جسمانی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، پولیس نے کیا کردار ادا کیا، ہمارے نظام نے اس بچی سے ثبوت مانگا کہ آپ کے ساتھ کیا اور کیسا ہوا! حیرت ہے، ہمارے بھی گھر ہیں جس میں بیٹیاں بھی ہیں، بیوی بھی ہے، بہنیں بھی ہیں اور ماں بھی

وزیر تعلیم سے یہاں یہ سوال بنتا ہے کہ وہ طاہرہ کو اپنی فیملی ممبرز کے جگہ پر رکھ کر کیوں نہیں دیکھتے وہ یتیم بچی تھی اس کا کیس کون اٹھائے گا، کیا ہماری فیملی میں کسی کے ساتھ اس طرح کا واقعہ ہوجائے تو ہم اس کا ثبوت کسی عدالت کو پیش کرسکتے ہیں؟ ویسے اس طرح کے واقعات کے ثبوت کیا اور کیسے ہوسکتے ہیں یہ بھی کوئی ہمیں سمجھائے، کیا جان قربان کرنے کے بعد بھی وزیر تعلیم اور عدالتی نظام کو کوئی ثبوت چاہئے، کیا وزیر تعلیم ایک استاد کو عبرت کا نشان بنانے کے بجائے اپنے سکول میں قتل ہونے والی طاہرہ کے قاتلوں کو جو اس معاشرے کے لئے ناسور ہیں، عبرت کا نشان بناسکتے ہیں؟ نہیں نا وہ ایسا نہیں کرسکتے کیوں نہیں کرسکتے، یہی تو ملین ڈالر کا سوال ہے۔ ہماری سوچ انتہائی سطحی ہے ہم بڑے جرائم کو فراموش کردیتے ہیں اور چھوٹے مجرموں کو عبرت کا نشان بنادیتے ہیں شاید ہم خود بڑے مجرموں کے ساتھی ہیں، وزیر تعلیم خود تو سکول کھولنے سے رہے، آبادی کے تناسب سے سکولوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور جو لوگ پرائیوٹ طور پر سکول کھول کر عوام کو گھر کی دہلیز پر سہولیات فراہم کررہے ہیں ان کو ہم نشان عبرت بنارہے ہیں، انصاف کا اس سے بڑا بول بالا کیا ہوسکتا ہے؟ طاہرہ جیسے لوگ ہمیشہ حکمرانوں کے لئے ایک ٹیسٹ کیس کا درجہ رکھتے ہیں مگر حکمران ان تمام عوامل سے اپنے آپ کو دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے عوامی مفاد کا کوئی پہلو نکل آتا ہو، ہم اپنی بیٹیاں حکومت کے زیر انتظام سکولوں میں کس طرح بھیجیں جہاں ایسے بھیڑیے بیٹھے ہیں جو طاہرہ جیسی یتیم بچیوں کا قتل کرتے ہیں، وزیر تعلیم سے ایک اور سوال بھی بنتا ہے کہ اب کوئی طاہرہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا کبھی ذکرنہیں کرے گی کیونکہ ذ کرنے کے بعد معاشرہ طاہرہ کو موت دے سکتی ہے انصاف نہیں۔ خدارا اس استاد کو نشان عبرت بنانے کے بجائے طاہرہ کے قاتلوں کو نشان عبرت بنائیں تاکہ ہم آپ پر آپ کے سکولوں پر اعتماد کرسکیں، طاہرہ مرگئی انصاف ڈھونڈتے ڈھونڈتے اور کتنی طاہرہ خودکشی کرلیں یا قتل کردیئے جائیں توآپ کو ہوش آئے گا۔؟

5 Replies to “اور طاہرہ مرگئی”

  1. Parties who are mainly responsible for this accident are police and judiciary, because police has not conducted complete investigation and judge/magistrate has not provided justice therefore the girl committed suicide. Nobody speaks against both parties because if someone did so then action would be taken against him/her. This is not the only case, there are many other cases where justice is not provided to the complainants by police and judiciary.

  2. A country is known for
    1. How it treats its women?
    2. How it treats its pets?
    Both the cases are pathetic in our country. When it comes to culture women are the most highlighted segment of society, but if its comes to cruelty, women are the most vulnerable. Our society afraid of being witness to a crime happened in front of their eyes and yet no one comes forward and say it. Teachers are supposed to be leaders of society, and what confidence these teachers extend to the community to send their teenage daughters to be educated from these non sense people, or what kind of education they will impart to the larger society. We strongly request district education office to look into the matter very seriously by non local experts and bring those in court of law to teach lesson to others.
    This is one reported case unfortunately against some individuals, but there are many incidents go unreported in all types of school and teachers take them for granted. Children are the most precious assets of their parents, and must be treated by the teachers accordingly. A thorough investigation under external team must be carried out, because authorities associated with education department will not bring the reality to the front, they are passengers of the same boat.
    Civil society, youth, community have to speak up and condemn in strong words.
    WHO WILL SPEAK UP ABOUT PETS?
    Thanks

  3. Wonderful job, Mr. Tajik. I wonder why the civil society is so dead over this tragic incident in which a girl was subjected to death for her no sin or fault. There should have been general strikes from Arandu to Baroghil over the incident but we are least bothered about it. All this signifies the collective death of our consciences.
    Shame on our Chitral police for its negligence.

  4. Thank you Shams Rehman Tajik for highlighting this sensitive issue, this is our social duty to raise voice for the justice of Tahira’s case.

  5. مجھے یوں لگ رہا ہے کہ – حکومت پرائیویٹ سکولوں کو بدنام کرنے کے لیے بہانے ڈھونڈ رہی ہے .. اپ نے خوبصورت انداز ،میں توازن کی بات کی ہے .. سزا میں توازن کا تصوور ہمارا مذہب سب سے خوبصورت انداز میں سکھاتا ہے .. اگر ایک کوڑلے کے بارے میں احکامات پر غور کیا جایے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے .. مذہب میں بھی سزا کا تصوور واضح طور پر موجود ہے ، اور ساتھ میں اس میں توازن پر اور بھی زیادہ زور دیا گیا ہے.. طاہرہ کے سلسلے میں مجھے ایک بات پر حیرت ہے .. یا مجہے معلوم نہیں ہو سکا .. کہ آج تک کسی لسپرک صاحب یا صاحبہ نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا .. ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی صاحب ایران توران کی بات کرتے ہیں لیکن چراغ تلے اندھیرا …. اپنے ہی گاووں میں کسی پر ظلم کا پہاڑ ٹوٹا ،، ایک لفظ زبان سے نہیں نکلی .. کسی مستچکی نے کوئی بات نہیں کی .. ھرچیں والے جانوروں کے ویکسینیشن دیر سویر ہونے پر میرے خلاف کیا کچھ نہیں کرتے تھے .. لیکن آج ان بیٹی بد ترین ظلم کا شکار ہوئی تو سب کے ہونٹ سل چکے ہیں. .. اگر مذکورہ لوگوں بشمول فیضی صاحب نے کچھ لکھا لیکن میری نظروں سے نا گزرا ہو تو معافی چاہتا ہوں ..

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *