چترال کے تین ادوار

Iqbal سے قبل کے چترال کی مجموعی صورت حال کو اگر کریدا جائے تو ظلم و ذیادتی اور انسانی اقدار کی پا مالی 1947کے تعفن سے دم گھٹنے لگے گا۔ کہتے ہیں کہ اس دور میں چترال کے مکینوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کو ریاستی ملکیت حاصل تھی ۔ فرمان شاہی کے سامنے لب کشائی کی جرات کجا محل سرا کے خواتین کی گذر گاہوں پر مخلو ق خدا کو دیواروں پر نظریں جمانے کا حکم تھا ۔ کسی حکمران کی موت پر لوگ یقین کرنے کے لئے بھی تیار نہ ہوتے تھے ۔رعا یا کو خوش نما گھر بنانے کی اجازت نہ تھی اور دیدہ زیب جامہ پوشی صرف شاہی خاندان اور اس کے کا لہ یسوں حق تصور کیا جاتا تھا۔کوئی شاہی خدمت پر مامور تھا تو کوئی شاہی خاندان کے متعلقین کی چوکھٹ پر سر جھکا نے پر مجبور حکمران خاندان کے افراد کے ہاتھ کو بوسہ دینا اعزاز سمجھا جاتا تھا ۔ اور خاص کر حاکم وقت کی دست بوسی کا شرف حاصل کرنا دور حاضر کے نوبل پرائیز کے ہم پلہ تصور کیا جاتا تھا ۔ دن بھر کی محنت شاقہ کے بعد پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے نان جوین کاحصول عیاشی کے مترادف تھا ۔ جس طرح فرعون نے اپنے اقتدار کے لئے خطرے کی پیش گوئی پر اسرائیل کی نرینہ اولاد کا قتل عام کئے تھے ۔ اسی طرح چترال میں اقتدار کے دوام کے لئے یہاں کے مکینوں کو علم کی روشنی سے محروم رکھا گیا جس کا اظہار اس علاقے میں پہلے علمی مرکز کی بنیاد رکھنے کے بعد اس وقت کے حکمران نے اسے اپنے قلعے کے لئے ایٹم بم سے منسوب کر کے کیا تھا ۔ اس پر آشوب دور میں جس طرح انسان حکمرانوں کے فیصلوں کو بلا چون چرا قبول کئے اسی طرح زندگی کی ہر حالت پر بھی صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دئے ۔ اس اندھیر نگری کے بعد جب آزادی کے سورج کے طلوع کے ساتھ دوسرے دور کا آغاز ہوا توجبرو استبداد سے خلاصی ملی ۔ اپنے اور اپنی اولاد کی زندگی سنوارنے کیلئے سوچنے کے مواقع نصیب ہونے لگے ۔ مگر ذرائع آمدن نہ ہونے کی وجہ سے معاشی طور پر بد حالی کے ایام سے واسطہ نہ ٹوٹا ۔ ہر کوئی پیٹ بھر کھانے کو ترستا تھا۔ ضلعی ہیڈ کوارٹر میں ایک جانور کا گوشت تین چار دنوں تک قصاب کی دکان پر لٹکتا رہتا اور مکھی اور ذنبور اس پر منڈلاتے رہتے ۔ بھار ی بھر سامان پیٹھ پر اُٹھا کر چترال کے کونے کونے تک پیدل سفر کئے جاتے تھے۔ اور کسی نہر پر بیٹھ کر سستا تے وقت خشک روٹی کو پانی میں بھگو کر پیٹ کی آگ بجھا یا جا تا تھا ۔ عیدین میں پرُانے کپڑوں کو دھو کر پہنے جاتے تھے ۔ ان تمام تر مشکلات کے باوجود ہر کوئی اپنی حالت پر مطمئن اور شاکر و صابر تھا ۔ معاشیات کی دنیا اگر چہ ویران تھی مگر اخلاقیات کی دنیا میں ہمیشہ بہار ہی بہار رہتا انسانی اقدار کی مہک سے میرا دیس معطر تھا۔ آسودہ حال غمخوار اور غیریب خوددار ہوتا تھا۔ حرام خوری لفظ سے نا آشنائی تھی ۔ اور خوف خدا کی کیفیت سب پر طاری تھی ۔ رزق کے متلاشی ہو کر علاقے سے باہر جانے والوں کی طرف سے ملنے والے خیریت نامے کو پڑھنے کے لئے خط پڑھنے والا ڈھونڈنے سے بھی نہ ملتا تھا ۔ اور جہالت کی اس تاریکی میں بھی انسانیت کے چراغ سے پورہ معاشرہ منور تھا ۔باہمی اخوت و محبت کا یہ عالم کہ گاؤں کے کسی باسی کی بیماری پر اس کی مشترکہ طور پر تیمارداری کی جاتی تھی ۔ اور سردیوں کی طویل راتوں میں اپنے اپنے گھروں سے جلانے کی لکڑی لاکر شب بیدار ی کر تے تھے ۔ ایک دوسرے کے کام ملکر نمٹا تے تھے ۔ جسے عرف عام میں یار کہا جاتا تھا ۔ بارش کی ضرورت اور بندش کے لئے اپنے اپنے گھروں کے تیار جو ااور باجرے کی روٹی صدقے کے نام پر مسجد میں ایک ساتھ ملکر کھانے کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہی مراد پوری ہوتی تھی ۔ 1960 ؁ء کی دھائی کے اختتام تک زندگی کے شب وروز انہی کیفیات کے حامل تھے لیکن 1970 ؁ء کی دھائی کا آغاز ہوتے ہی زندگی کے رنگ اور ڈھنگ میں تغیرات پیدا ہونے شروع ہوئے ۔ آمدن کے ذرائع بڑھنے لگے ۔زندگی کروٹ لینے لگی ۔ آسودہ حالی کی فضاء بنی تو خوابیدہ خواہشات نفس نے انگڑائی لینی شروع کیں اور تقاضے بڑھتے گئے۔ ایک دوسرے سے بازی لے جانے کا تصور اُبھرتا گیا جس کے لئے مذہبی احکامات اور قیود کو بھی پھلانکا جانے لگا ۔ دسترخوان انواع و اقسام کی نعمتوں سے بھر تے گئے تو ساتھ ستاتھ ہوس میں بھی اُبھار پیدا ہونے لگے ۔حرام حلا ل کی تمیز مٹتی گئی اور پیدا گیری کے لئے مواقع ڈھونڈنے جانے لگے ، سکون قلب غارت اور انسانی اقدار دنیا طلبی کی نذر ہو نے لگے ۔ ۔ رشتے ناطے بھی مطلب کے ترازو میں تولے جانے لگے ۔ رہنے کے لئے پختہ گھر اور چلنے کیلئے گاڑی کی خواہش میں ہر کوئی تڑپان ہو نے لگے ۔ جب دنیانے آنکھوں میں صلہ رحمی کے آنسو بھی خشک کئے اور دل سر دخانے میں بدل گئے ۔ رنگ برنگ فیش کے دلدادے ہو ئے ۔ عزت و آبرو اور شرم و حیا کا جنازہ نکل گیا ۔ آخرت کا تصور پس منظر میں چلا گیا ۔ الغرض مادہ پرستی نے انسانیت کو مکمل طور پر حیوانیت میں بدل دی ۔ شائستگی ، شرافت ، اخلاق ، تہذیب عرض تمام معاشرتی اقدار پیٹ پر قربان ہو ئے۔ شکم تو بھر گئے مگر دل پہ ستم ٹوٹنے لگے ۔سب کچھ ہو تے ہو ئے بھی سکون قلب کی تشنگی بڑھتی گئی ۔ مہنگائی کارونا رو کر ناشکری کے بد ترین عمل کا ہر کوئی ارتکاب کر نے لگا ۔ اور یوں علم ودانش کا یہ دور چراغ تلے اندھیرے کے صورت اختیار کی ۔ خدا جانے آنے والی زندگی کے شب و روز میں خواہشات نفس کے اس بے لگام گھوڑے کی کیفیت کیا ہو گی ۔ ]]>

4 Replies to “چترال کے تین ادوار”

  1. hum asay articale ka tahaay dil say aur balaay shidat say intizaar ker rahay thay bhut khoob sir …………

  2. حیات صاحب ؛ پہلے تو میری طرف سے سلام قبول کیجئے گا .. کچھ کچھ یہی صورت حال ہمیں بھی یاد ہے – غلامی کا تاریک دور اور چترال کے عوام- لکین اب سب کچھ بهول بھلیاں ھو چکی .. جن پر ظلم ہوا ، وہ بھی چترال کی مثالی شرافت کی قید میں بندھے ہووے، اب بھی اکثر اس تاریک دور کے فرغونوں کا ہاتھ چومتے پھر رہے ہیں .. جن سے زبردستی عقاید بدلنے کلیے ظلم ڈھالے گیۓ وہ اب بھی ان کا سار بلند رکھنے کی قسم کھا چکے ،، ان کو بھی کچھ یاد نہیں . اور وہ جن کے عزت و ابرو کا سودا وقت کے غاصبوں نے کیا وہ بھی سب بهول کر – جو پایا اس پر فخر کرتے نظر آرہے ہیں، اور جو ان سے چھینا گیا وہ اب ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا .. جن کے گھر بار چھینےگئے وہ بھی خوش، جن کی عزتوں کا سودا ہواان کی جاہو جلال کا تو پوچھیں ہی مت .. بعد میں جو ہوا اس کی وجہ بھی ایسی ہے جیسے کسی جانور کو مدتوں پنجرے میں بند رکھنے کے بعد ، آزاد کردیا گیا ھو – ہماری یاد داشت بوہوت کمزور ہے ،، ھم نہ کسی کی برائی کو یاد رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کے احسانات کو .. شاید یہی چترالی شرافت کی تعریف ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *