sher wali khn aseer

یاد ماضی

شیرولی خان اسیر

جنوری کا مہینہ تھا۔میں دوسری جماعت کا طالبعلم تھا۔ میرا بڑا بھائی زیارت ولی خان مسوج کے مڈل سکول میں پڑھتا تھا۔ استاد غیرت بیگ اور حبیب اللہ المعروف امیر ماسٹر مستوج کے سکول میں استاد تھے۔ آمیر میرے ابو کے ماموں زاد بھی تھے۔ یہ دو حضرات ہمارے نئے گھر واقع چارغیری میں مہمان تھے۔ ان کی بڑی خاطر توضع ہورہی تھی۔ مہمان خانے کی انگیٹھی میں آگ جل رہی تھی۔ میں بھی مہمانوں کی خدمت کیلیے بڑے بھائی کے ساتھ موجود تھا۔ میرے ابو اپنے مہمانوں کے ساتھ محو گفتگو تھے۔ گفتگو کا موضوع مجھے یاد نہیں آرہا البتہ جب غیرت بیگ صاحب میری طرف اشارہ کرکے میرے والد سے سوال کیا وہ حرف بحرف مجھے یاد ہے اور ایسا یاد ہے کہ شاید قبر کے اندر بھی بھول نہیں پا سکوں گا۔ سوال کچھ یوں تھا۔ بھائی لال صاحب! کیاآپ کا یہ بیٹا بھی پڑھتا ہے؟ بابا نے جواب دیا، جی ماسٹر صاحب پڑھتا ہے۔ اب دوسرا سوال آیا۔ کیسا ہے پڑھائی میں؟ بابا کا جواب تھا۔ ماسٹر بھائی! مجھے کیا پتہ میں آنپڑھ آدمی ہوں۔ سکول آتا جاتا ہے۔ میرے والد کے بقول ناظرہ قران کے علاوہ انہوں نے اردو قاعدے کاصرف ایک ورق پڑھا تھا۔ غیرت بیگ مرحوم نے مجھ سے کہا بیٹا ذرا اپنی اردو کی کتاب لے آؤ۔ یہ حکم نہیں تھا بلکہ مجھ پر ایک پہاڑ ٹوٹا تھا۔ایک بم پٹھا تھا۔ آج کا دن میرے لیے قیامت سے کم نہیں تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ میری اردو کیسی ہے؟ والدین کا لاڈلا بھی تھا اور بابا سے بہت ڈرتا بھی تھا۔ آج میری وہ بے عزتی ہونے والی تھی جس کی خلش ساٹھ سال گزرنے کے باجود بدستور قائم ہے۔ میرے پاس نہ جائے ماندن تھی نہ پائے رفتن۔ مجھے ہر صورت اردو کی دوسری کتاب لے کر اس آدمی کے پاس آنا تھا جس کا نام سن کر لوگ کانپتے تھے۔ بڑا سخت گیر استاد کے نام سے مشہور تھا اور ان کی قابلیت بھی مسلمہ تھی۔ میری بدقسمتی تھی کہ آج وہ ہمارے گھر میں ایک معزز مہمان کے طور جلوہ افروز تھے۔ اس حکم کے بعد غیرت بیگ مجھے برا لگنے لگا۔ مختصر یہ ہے، میں کتاب ہاتھ میں اٹھائے حاضر ہوا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو چار جگہوں پر کتاب کھول کر مجھ سے پڑھنے کو کہا لیکن میرے ہونٹوں کو جنبش نہ ہوئی۔ غیرت بیگ صاحب نے کتاب بند کی اور میرے ابو کی طرف منہ کرکے کہا، ہاے لال تہ ہیہ ژاؤ نا لائق برائے۔ (ہائے لال! تیرا یہ بیٹا نا لائق نکلا)۔ یہ جملہ نہیں گولی تھی جو میرے سینے کے آر پار ہوگئی۔ حالانکہ میرا بڑا بھائی زیارت ولی خان جو ان کا شاگرد تھا بھی کسی قابل ذکر کارکردگی کا حامل نہیں تھا، لیکن مجھے تو رد ہی کردیا گیا۔ شومئی قسمت سے میں صرف اردو میں نالائق تھا اور اسی میں امتحان کو بنیاد بناکر مجھ ناتوان کو انتہائی نالائق قرار دیا گیا تھا جو بے انصافی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ حساب، اسلامیات، معاشرتی علوم مین بھی امتحان لیا ہوتا تو مجھ پر یہ ظلم ہرگز نہ ہوتا۔ میرے والد محترم میری طرف افسوس کی نگاہوں سے دیکھا لیکن لوگوں کے سامنے کوئی سرزنش نہیں کی۔ اس رات کے بعد غیرت بیگ کا نام سنتا تو منہ میں کڑواہٹ آجایا کرتی تھی۔ باشعور ہونے تک میں نے غیرت بیگ استاد کو معاف نہیں کیا تھا۔ قارئین کے دل میں سوال پیدا ہوا ہوگا۔ جو بچہ دوسری جماعت میں اردو کے سوا سارے مضامین میں اچھا تھا۔ اردو میں انتہائی کمزور ہونے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟ کیا اس نے یہ کمزوری دور کی ؟ اگر کی ہے تو کیسے؟ کیا غیرت بیگ کے نا قابل معافی جرم معاف ہو گیا جو ایک معصوم کی عزت نفس کو مجروح کرنے کی صورت میں ان سے سرزد ہوگ پہلے سوال کا جواب دینے کے لیے مجھے تھوڑا پیچھے جانا ہوگا۔ ١٩٥٦ کے مارچ یا اپریل میں میرے منجھلے چچا میر صاحب خان ( المعروف موژغیشٹی تاتی) مجھے اپنے ساتھ پرکوسپ لاکر پرائمری سکول پرکوسپ میں داخل کرایا تھا۔ میری ماں کے ماموں شکور رافع مرحوم ہمارے استاد تھے۔ میں نے دو مہینے ان کے پاس قاعدہ پڑھا۔ جون کے پہینے میرے ابو کی شدید بیماری کی خبر ملی تو میرے چھوٹے چچا شیرنبی خان مجھے، بھائی زیارت ولی خان اور بلبل صاحب خان کو لے کر یارخون گئے۔ میں واپس پرکوسپ آنے سے انکار کردیا۔ گرمی کی تعطیلات نزدیک تھیں۔ تعطیلات کے بابا نے مجھے پرائمری سکول میراگرام نمبر ٢ میں داخل کرایا جہاں شیراعظم خان آف اویون ،رحمت اللہ خان لال کے مہمان خانے کے صحن میں بچوں کو پڑھایا کرتے تھے۔ میں ننیھال میں رہائش رکھی اور استاد شیراعظم سے پڑھنا شروع کیا۔ستمبر مین کے سکول میں داخل کرائے۔ ترغیب یہ تھی کہ وہ مجھے پہلی جماعت میں داخلہ دے گا۔ میرے ابو نے مجھے پرائمری سکول بانگ کی پہلی جماعت داخل کرا لیا۔ اس زمانے میں قاعدہ ایک سال کا کورس ہوا کرتا تھا اور پہلی دوسرے سال میں پڑھائی جاتی تھی۔ پہلی میں باقاعدہ عبارت خوانی شروع ہوتی تھی۔ یہاں سے میری نا لائقی کی کہانی بھی جنم لیتی ہے۔ میں نے قاعدہ پورا نہیں پڑھا تھا اس لیے حروف کی مختلف اشں میرا ختنہ کرایا گیا اور جب زخم بھر گیا اور میں دوبارہ سکول جانے کے قابل ہوا تو ان دنوں بونی سے محمد شیر استاد بانگ کے پرائمری سکول میں مقرر تھا اور اس نے میرے ابو کو ترغیب دلائی کہ وہ مجھے اکال اور ترکیب سے نا واقف تھا۔ استاد محترم نے اس بات کی طرف توجہ نہیں دی اور میں اردو میں کورے کا کورا رہ گیا۔ اب دوسرے سوال کے جواب کی طرف آتے ہیں۔ غیرت بیگ استاد کا لگایا ہوا زخم اتنا شدید تھا کہ اس نے مجھے اس عمر میں احساس دلایا تھا کہ بیٹا! تم نے بے عزتی کا یہ داغ دھو ڈالنا ہے۔ اپنی نالائقی دور کرنی ہے۔ مگر کیسے؟ (جاری ہے)

9 Replies to “یاد ماضی”

  1. Dear sir, hope your yaad e maazi would also reach the govt high school brep where you came as the first chitrali headmaster when i was a class 7th or 8th student there.
    one day i was made referee for a volleyball match in the school but was lambasted from players of one of the teams and their supporters for being biased towards the other team with which you were also playing. they all knew why i lacked neutrality and the result was obvious. Waiting for some memories from ghs brep.
    I wish you long and happy life.
    your old student.

    1. Sure, my dear! what I could recall, shall be shared. You should not hide yourself behind the ‘old student’.

  2. A really interesting read. Miki, I strongly suggest that a poetic autobiography be kindly written, highlighting such interesting and worth sharing experiences of your life! That would be a very unique contribution to Khowar literature.

    1. Thanks beta for appreciation of the write up. For the time being I am trying to recall the forgotten episodes of my life. After that, if Allah gives further chance of life, I would try to compose as per your suggestion.

  3. بہت ہی پرلطف اور مزاح سے بھرپور۔۔حالانکہ بہت دفعہ یہ قصے سن چکی ہوں لیکن اس مضمون
    کو پڑھتے ہوئے ایک الگ ہی مزہ آیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *