اوریجنل چترالی
دھڑکنوں کی زبان
محمد جاوید حیات ؔ
گہریت کے مقام پر ہم گاڑی میں جار ہے تھے ۔اپنی باری پہ جاکے ٹھرے تو پاک فوج کے جوان نے ایک نظر اٹھا کر کہا ۔۔۔۔’’اورجنل چترالی ‘‘پھر ہاتھ کے اشارے سے جانے کو کہا ۔ میں نے سوچا کہ ’’اورجنل چترالی ‘‘پر اتنا اعتماد ہے ۔ حالیہ سیلاب میں سارا ملک چترال کی طرف دوڑ پڑا اور چترالیوں سے مددکو اپنے اوپر لازم قرار دیا ۔ کئی لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ۔
لاہور کے ایک سکا لر ٹائپ آدمی نے یہ کہہ کر مذید حیرت میں ڈال دیا ۔ ’’بھائی صاحب کئی جگہ صحابہ کرامؓ کی ایثار کی یا د تازہ ہو گئی ‘‘ ایک متاثر شخص دوسرے متاثر کی نشاندھی کر رہا تھا ۔ کہ وہ مجھ سے زیادہ متاثر ہے ۔ اور جو اکثر اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے ۔ اور کہہ رہے تھے کہ اللہ پاک کا حکم ہے اللہ کی ازمائش ہے۔ اور پھر اکثر اپنی ناشکری اور گناہوں کو یاد کر رہے تھے ۔ یہ ایک مثالی قوم ہونے کا ثبوت ہے اس کے ساتھ ساتھ پھر بھی چترالیوں کو ایک دوسرے سے شکوہ رہتا ہے ۔ کہ ہم میں ایثار کی کمی رہی ہے ۔ قربانی کے جذبے کا فقدان ہے۔ مضبوط قوم ہونے میں دیر ہے ۔ حالانکہ تحصیل لٹکوہ کے باشندوں نے لٹکوہ روڈ کھول کر اپنے کوہ کن ہونے کی مثال قائم کی ۔ ایک تاریخ رقم کی ۔ ان کی جفا کشی سب کو ماننا پری ۔
کئی جگہوں پر مقامی لوگوں نے خود اپنی نہریں ، رابطہ سڑکیں کھول دیں ۔ بجلی بحال کی۔ متاثرین کی مدد کی ۔ بے گھروں کے لئے اپنے گھروں تک کو خالی کیا ۔ گاؤں گاؤں پیسے جمع کئے اور متاثرین کی مدد کو پہنچے ۔یہ سب ایک ’’معیار ‘‘ ہے ۔ اس معیار کو سب نے محسوس کرنا ہے۔ سیاسی لیڈرز، بڑے بزرگ ،زمہ دار آفیسر ز دوسرے سٹیک ہولڈرز، جن کی پہچان ایسے ’’وقت ‘‘ آنے پر ہوتی ہے ۔ ان کو چین سے نہیں بیٹھناچاہئے تھا۔ ہر چترالی کو اپنے اورجنل چترالی ہونے کا ثبوت فراہم کرنا چا ہیے ۔ ان کی ’’ایثار ‘‘ کی روایات ہیں ۔ قصہ مشہور ہے کہ کس زمانے میں درشگوم گلگت جا کر بندوق کی بیرل میں مکئی کا غلہ بھر کر لا یا جاتا پھر اس کو بھی ضرورت مندوں میں برابر تقسیم کیا جاتا ۔ اس دفعہ اگرچہ ایسی مجبوری کی باری نہیں آئی ۔
لیکن ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت سامنے آیا ۔ بحیثیت چترالی ہر ایک کو سو چنا چا ہیے تھا کہ وہ ایک مثالی قوم کا فرد ہے۔ جو متاثر ہے وہ مدد کا حقدار ہے جو متاثر نہیں وہ اللہ کا شکر ادا کرے ۔ اور آرزو نہ کرے کہ اس کو پیکیج ملے ۔کیونکہ اس کو متاثر ہونے کی آرزو نہیں ہونی چاہیے ۔ تقربیاً ایسا ہوا کہ اس شاہانہ طبیعت اورستارہ مزاج قوم نے اپنی انفرادیت ، قناعت، صبر ، برداشت ، سچائی اور شرافت کا ثبوت دیا ۔ یہ ان کی شرافت تھی کہ پور ی قوم ان کی طرف دوڑ پڑی ۔ اس میں میڈیا کا بڑا رول تھا ۔ قیادت میں ایک مقابلے کا رجحان رہا ۔ کہ ایک سے ایک بڑھ کر چترالیوں کی مدد کرے ۔ سب کا بھلا ہو کہ اس پسماندہ علاقے پر توبہ دی گئی مرکزی حکومت کے وعدوں میں دو وعدے سڑکوں کی بحالی اور گاؤں گاؤں یوٹیلیٹی سٹور قائم کرنا بُہت اہم وعدے ہیں اگر یہ پورے ہوں تو تمام کے مسائل کم ہونگے سب سے پسماندہ تحصیل تورکہو میں وائر لیس لوپ کا سسٹم ہی رکا ہوا ہے اور عملہ خاموش بیٹھا ہے عوام غذاب میں مبتلا ہیں ۔پی ٹی سی ایل کے اعلیٰ حکام اس پر توجہ نہیں دیتے اس علاقے میں یہ رابطے کا واحد ذریعہ ہے ۔ اورجنل چترالی خاموش دھائی دیتے ہیں ۔سٹرکوں پر نہیں آتے ۔ مگر ان کی خاموش دھائی میں دعا کی طاقت ہوتی ہے ۔اورجنل چترال وفا کے پتلے ہیں آج ہر چترالی ماں ہاتھ اٹھاکے کہتی ہے ۔ اے اللہ ہمارے ملک کے جوانوں کو سلامت رکھے چترالی بہن اپنے غیر مند بھائیوں کو سلام پیش کر تی ہے چترالی بیٹی کی انکھوں میں لحفظ کی چمک ہے ۔ چترالی بچے کسی خطرے کو خطرہ نہیں سمجھتے۔اورجنل چترالی کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اس کو ایسی قوم سے واسطہ پڑا ہے جو ایثار وقربانی والی ہے۔
اب جس گھر سے جس ٹینٹ سے جس پہاڑی کے کھو سے دھواں اُٹھتا ہے جہاں چترالی جابسے ہیں وہ وہاں پر بھی اپنی اورجنل چترالیت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ٹنٹ ٹنٹ میں حق ہمسائیگی ادا ہورہی ہے۔دکھ درد بانٹا جارہا ہے۔غم غلط کیا جارہا ہے اب ان کو حوصلہ دینے والے اگر پیچھے ہٹیں گے تو یہ ان کا ’’تجاہل عارفانہ‘‘ہوگا۔جس کو زمانہ معاف نہیں کرے گا کیو نکہ جو راہنما اپنی رعایا سے بے خبر ہو اس کو راہنمائی کا کم از کم حق نہیں پہنچتا۔