Five years on, Chitral bypass project still in doldrums
چترال(گل حماد فاروقی) چترال بازار میں رش کم کرنے کی عرض سے عوامی نیشنل پارٹی کے حکومت میں وزیر اعلےٰ خیبر پحتون خواہ امیر حیدر خان ہوتی نے پانچ سال قبل عبدالولی خان بائی پاس روڈ کا افتتاح کیا تھا اور اس متبادل سڑک کیلئے تقریباً 75 کروڑ روپے بھی جاری کئے تھے۔ تاہم محکمہ کمیونیکیشن اینڈ ورکس کی نا اہلی اور عدم توجہ کی وجہ سے یہ منصوبہ ابھی تک تاخیر کا شکار ہے۔ ایک طرف یہ سڑک سیدھا بنانے کی بجائے ٹیڑھا بنایا گیا ہے جو با اثر افراد تھے ان کی دکان، مکان اور جائداد کو بچایا گیا ہے اور جن کی رسائی نہیں تھی ان کو سرکاری نرح پر زمین کی ادائگی کرکے سینکڑوں دکانیں مسمار کردی گئی۔ ہمارے نمائندے سے باتیں کرتے ہوئے چند دکانداروں نے کہا کہ اس بائی پاس کی وجہ سے سیکنڑوں دکاندار کئی سالوں تک بے روزگار رہے جبکہ یہ سڑک ابھی تک مکمل نہیں کیا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ محکمہ سی اینڈ ڈبلیو جو اپنی تنخواہ کے علاوہ ہر ترقیاتی منصوبے میں اپنا کمیشن بھی مال غنیمت سمجھ کر لیتے ہیں انہوں نے اپنی کمیشن کی چکر میں ایک بار اس منصوبے کا فنڈ بھی واپس کرایا کیونکہ ان کے عزائم پورے نہیں ہورہے تھے تو انہوں نے اس بڑے منصوبے کو تعطل کا شکار کیا۔ اب اس روڈ کے کنارے دوبارہ دکانیں بنائی گئی مگر سڑک ابھی تک کچا ہے اور اس پر گاڑیاں گزرتے وقت مٹی اور گرد وغبار کی وجہ سے لوگوں کو نہایت تکلیف ہے دکانداروں کا کہنا ہے کہ اس مٹی اور گرد وغبار کی وجہ سے وہ محتلف بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں مگر حکومت کو ان کی صحت ا ور مشکلات کا حساس تک نہیں ہے۔ مقامی لوگوں نے چیو پُل کے قریب اس سڑک میں بعض مقامات کی نشاندہی کرائی جو پچھلے سال موسم سرما میں اس پر تارکول ڈالا گیا تھا تاہم ماہرین کے مطابق چترال جیسے سرد علاقوں میں صرف جون، جولائی اور اگست میں تارکول صحیح لگتا ہے مگر محکمہ والوں نے اپنے کمیشن کی حاطر غیر مقامی ٹھیکدار سے مل کر اسے تارکولی کرایا مگر بدقسمتی سے صرف تین مہینے کے بعد وہ سارا تارکول اکھڑ گیا۔ تارکول حتم ہونے کے بعد سڑک میں گہرے کھڈے پڑ گئے اور گاڑیاں جاتے وقت اس سڑک میں ہموار جگہہ کی تلاش میں ادھر اُدھر موڑتے ہوئے جاتے ہیں جس سے راہگیروں کو بھی بہت تکلیف پہنچتا ہے۔ بائی پاس روڈ اب سڑک کی بجائے بس سٹینڈ یا اڈہ بنا ہوا ہے جس پر آس پاس میں رہنے والے لوگ مکانات کی تعمیر کرنے کیلئے میٹیریل ڈالتے ہیں۔ جگہہ جگہہ پر دیکھا گیا کہ اس روڈ پر اپنے گھرو ں کیلئے سیمنٹ کے بلاک بناتے ہیں کہیں پر ہتھ ریڑے کھڑی ہیں اور بعض جگہہ پر پھل فروشوں نے گاڑیاں کھڑی کی ہیں ۔ حال ہی میں محکمہ کیمونیکیشن اینڈ ورکس کے اہلکار وں کے ملی بھگت سے اس کا ٹھیکہ ایک اور مقامی ٹھیکدار کو دیا گیا ہے جنہوں نے ایک بار پھر سڑک کے کنارے دریا کی جانب حفاظتی پُشت سیمنٹ سے تعمیر کئے ہیں حالانکہ موسم سرما میں چترال جیسے جگہہ میں سیمنٹ کا کام کامیاب نہیں ہوتا اور اب سڑک پر پتھر کا روڑہ رولر مشین سے ہموار کرکے اس پر شائد تارکول ڈالنے کی تیاری کررہے ہیں حالانکہ اس مہینے میں تارکول نہیں لگتا اور محکمہ سی اینڈ ڈبلیو نے ایک بار پھر وہی غلطی دہرائی تو پہلے والے تارکول کی طرح یہ بھی چند مہینے کے بعد اکھڑ کر سڑک کھنڈرات کا منظر پیش کرے گا۔ واضح رہے کہ امسال رمضان کے مہینے میں محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے چند ا ہلکاروں اور ٹھیکداروں کو بد عنوانی کے الزام میں محکمہ انسداد رشوت ستانی نے گرفتار بھی کئے تھے جن پر مقدمات درج کرکے ان سے لاکھوں روپے واپس بھی لئے تھے جنہوں نے کروڑوں روپے کا غبن کیا تھا۔ چترال کے سیاسی اور سماجی طبقہ فکر نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے ذمہ داروں کو سختی سے ہدایت کرے کہ بائی پاس روڈ کی تعمیر کا کام موسم گرما میں کرے اور گرمی شروع ہوتے ہوئے اس روڈ پر فوری کام شروع کرے تاکہ عوام کی زندگیوں میں قدرے آسانیاں پیدا ہوسکے۔
]]>