Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

’کتاب ’چترال کی زبانیں

کتاب ’چترال کی زبانیں: ماضی، حال، مستقبل‘ کا جائزہ

زین الملوک

فخر الدین اخونزادہ نے اپنی تحقیقی کتاب ’چترال کی زبانیں: ماضی، حال، مستقبل‘ بہ طورِ ہدیہ ارسال کی تھی۔ ایک ایسا خطہ جہاں پر تحریری شواہد نہ ہونے کے برابر ہوں، لوک روایات دم توڑتی جا رہی ہوں، وہاں ایسی کتاب ترتیب دے کر قارئین کو مستند معلومات فراہم کرنے پر مصنف اور کتاب کے ناشر فورم فار لینگویج اِنیشئیٹیوز (Forum for Language Initiatives – FLI)، اسلام آباد یقیناً مبارک باد کے مستحق ہیں۔ یہ کتاب لسانیات سے دل چسپی رکھنے والے طلبہ اور محققین کے لیے یقیناً مشعل راہِ ہوگی۔ مختلف ادارے، ادبی تنظیمیں، شُعرا، اُدبا، لکھاری، مؤرخین اور شہری اس سے استفادہ کر کے کئی ادھورے مشن کی تکمیل کرتے ہوئے اپنی مادری زبانوں کو ترقی دینے کے قابل بنائیں گے۔

چترال کی زبانیںکتاب کا پیش لفظ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد کے ایسوسی ایٹ پروفیسر، ڈاکٹر محمد کمال نے لکھا ہے جس میں چترال کو مملکتِ خداداد کا ماتھے کا وہ جُھومر اور خطۂ دل رُبا قرار دیا ہے جو اپنے حُسن میں کسی پرستان سے کم نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بارہ زبانوں کی موجودگی کی وجہ سے چترال کو مختلف زبانوں کا گل دستہ بھی قرار دیا ہے۔

ناچیز کو اپنے آبائی علاقے چترال سے دور رہنے کے باوجود اپنے آپ کو اپنی علاقائی روایات سے جوڑے رکھنے، اُن روایات سے اپنی محبت کا برملا اور بھر پور اظہار کرنے، دوسروں کو بھی اپنی روایات اور زبان سے محبت کرنے کا درس دیتے ہوئے لگتا تھا کہ مجھے چترال میں بولی جانے والی تمام زبانوں کا ادراک ہے، مگر مذکورہ کتاب کا مطالعہ شروع کرتے ہی اِس بات کا احساس ہوا کہ چترال میں بولی جانے والی زبانوں اور ان کی تاریخ کے بارے میں میرے پاس بہت کم معلومات ہیں۔

کتاب کے مطالعے سے پتا چلا کہ پانچ لاکھ سے زائد آبادی (مردم شماری رپورٹ ۲۰۱۷)  والے اس علاقے میں بارہ مختلف زبانیں (پشتو، پالُولا، دمیلی، کتہ وری، کمویری، کالاشہ، کھوار، گوجری، گَوَرباتی، مڈک لشٹی، وخی اور یدغا) بولی جاتی ہیں اور ہر زبان بولنے والوں کی الگ الگ تعداد ہے۔ البتہ ’کھوار‘ چترال کی سب سے بڑی زبان ہے جس کے بولنے والوں کی تعداد تین لاکھ اسی ہزار سے زائد ہےجو کہ چترال کی کل آبادی کا ۸۰ فی صد ہے۔ جب کہ سب سے چھوٹی زبان ’وخی‘ ہے جس کے بولنے والوں کی تعداد صرف پندرہ سو نفوس پر مشتمل ہے۔ تمام بارہ زبانوں کا تعلق ہند آریائی، ایرانی اور نورستانی لسانی خاندانوں سے ہے۔ ان میں سے کچھ زبانیں چترال کی مقامی ہیں اور کچھ زبانیں پڑوسی علاقوں اور دوسرے ممالک سے آکر یہاں شامل ہوگئیں۔

فاضل مصنف نے چترال کی ہر ایک زبان کا تاریخی پس منظر، اُس کا نقطۂ آغاز، اُس زبان پر کی گئی تحقیق کا حوالہ و خلاصہ اور اُس کا جغرافیہ مع نقشہ بیان کیا ہے۔ اِس ترتیب سے پڑھتے ہوئے ہر زبان اور اس سے متعلقہ علاقوں اور لوگوں کی شباہتیں تصور میں گردش کرتے ہوئے محسوس ہوتی ہیں۔ اخونزادہ صاحب نے ہر زبان کی تاریخ کو کنگھالتے ہوئے اُس کا لسانی گروہ بھی بیان کیا ہے کہ وہ زبان کس طرح وجود میں آئی یا کس کے ذریعے سے چترال تک پہنچی اور پھیلی۔ کتاب میں ۲۰۱۷ کی مردم شماری کے تناظر میں ہر زبان کی کل آبادی اور دیہات کا تعین کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ جن دیہات میں اگر کوئی مخصوص زبان بولی جاتی ہے، وہاں کی ثانوی زبان یا کثیر اللسانیات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔ مزید برآں، کچھ زبانوں کے ذیلی گروہ اور قبائل کا بھی نقشہ کھینچا گیا ہے، مثلاً: پشتو، دمیلی، کتہ وری، کمویری، کھوار، گَوَربتی اور یدغا وغیرہ۔

زیرِ بحث کتاب میں چترال کی ہر زبان کی موجودہ صورتِ حال کا تحقیق اور مشاہدے سے جائزہ لیا گیا ہے کہ کس کس وادی یا گاؤں میں کون کون سی زبان پروان چڑھ رہی ہے یا معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے اور کیوں؟ زبان پر کون کون سے عوامل کس کس طرح اثر انداز ہو رہے ہیں۔ مزید یہ کہ اگر ایک شادی شدہ جوڑے میں میاں بیوی الگ الگ زبان بولنے والے ہیں تو اُس کا جوڑے، بچوں، خاندان اور گاؤں پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔ کئی دیہات کے باشندوں کا اپنی اصل ثقافت اور روایات کو پسِ پشت ڈال کر مذہبی یا سماجی دباؤ کی وجہ سے اپنی اصل شناخت سے چُھٹکارا حاصل کرنے کے لیے قریبی علاقوں میں بولی جانے والی زبانوں کو اپنانے سے اُن کی اپنی زبانیں معدومیت کے شدید خطرے سے دوچار ہیں۔ مثلاً: کلکٹک کے باشندے نسلی طور پر ’کالاشہ‘ ہیں اور اُنھوں نے تبدیلیٔ مذہب کے بعد ’پالُولا‘ زبان کو اپنا لیا ، مگر وہی لوگ اب ’پالُولا‘ کو آہستہ آہستہ خیرباد کہتے ہوئے ’کھوار‘ کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔

مصنف نے ہر زبان کی ترقی و ترویج کا بھی جائزہ لے کر قارئین کو اہم معلومات پہنچائی ہیں کہ کون کون سے ادارے، اُدبا، شُعرا اور ماہرین اپنی مادری زبان کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔ کئی زبانوں کے بولنے والوں نے FLI کے ساتھ مل کر اپنی بقا اور ترقی کا سفر شروع کیا ہے۔ نیز کئی تنظیموں نے اپنی زبانوں میں کتابوں کی اشاعت کے ساتھ ابتدائی جماعتوں کے لیے نصاب بھی بنائے ہیں، جو کہ بہت حوصلہ افزا بات ہے۔

نیز کتاب میں ہر زبان کے بولنے والوں کی معاشی اور سماجی زندگی کی حقیقتوں کو جیتی جاگتی تصاویر کی صورت میں دکھایا گیا ہے۔ ہر علاقے اور زبان کے تعلیم یافتہ لوگوں، اُن کے ذریعۂ معاش، عمارتوں، چراگاہوں، بازاروں، کاروبار، پیشوں اور جرگہ وغیرہ کے نظاموں کو سہل انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

فاضل محقق نے ہر باب کے اختتام پر تمام تحقیقی مقالوں اور کتابوں کے حوالہ جات کی فہرست دے کر اپنے دعوؤں کی تصدیق کی ہے۔ مزید یہ کہ کتاب کے اختتام پر کتابیات کی صورت میں ان تمام مقالوں اور کتابوں کو یک جا کر کے مستقبل کے محققین کے لیے آسانیاں پیدا کی ہیں۔ مصنف نے یہ کتاب لکھنے کے لیے صرف دست یاب مواد پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مختلف مقامات اور دیہات کے کئی دورے کر کے مقامی آبادی، بزرگوں اور ادبی لوگوں سے ملاقاتوں کے بعد لسانی تاریخ کی کئی پیچیدہ گُتھیاں سُلجھائیں۔ یقیناً یہ کام ا ٓسان نہیں رہا ہوگا، لیکن قارئین کے لیے مستند اور سلیس اُسلوب میں معلومات پہنچانے کے لیے اتنے پاپڑ بیلے ہوں گے۔

کتاب کے آخر میں اخونزادہ صاحب نے چترال میں بولی جانے والی ہر زبان سے کچھ نمائندہ شُعرا کا کلام بہ طورِ نمونہ ترجمے کے ساتھ پیش کیا ہے جو اس کتاب کی خوبصورتی میں مزید اضافے کا سبب بنا ہے۔

کتاب ’چترال کی زبانیں: ماضی، حال، مستقبل‘ اپنے موضوع کے اعتبار سے نہایت جامع ہے۔ تاہم راقم نے کچھ تجاویز اور سفارشات  مصنف کو دی ہیں۔ امید ہے اگلی اشاعت میں اُن کو شامل کیا جائے گا۔

خط اُن کا بہت خُوب، عبارت بہت اچھی

اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ

داغ دہلوی

You might also like

Leave a comment

error: Content is protected!!