Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

کیا آئی ایم ایف کو صرف ہماری پنشن نظر آتی ہے؟

دھڑکنوں کی زبان    محمد جاوید حیات  ہم سے مراد ریاست کو وہ معمولی نوکر پیشہ لوگ ہیں جو معمولی تنخواہ کے عوض ریاست کی تعمیر و ترقی میں اپنی عزیز عمریں گنوا دیتے ہیں۔ وہ اپنی نوکری اتنی معمولی تنخواہ سے شروع کرتے ہیں کہ یہ تنخواہ کسی افیسر ،کارخانہ دار، ٹھیکہ دار یا […]

دھڑکنوں کی زبان 

 

محمد جاوید حیات 

ہم سے مراد ریاست کو وہ معمولی نوکر پیشہ لوگ ہیں جو معمولی تنخواہ کے عوض ریاست کی تعمیر و ترقی میں اپنی عزیز عمریں گنوا دیتے ہیں۔ وہ اپنی نوکری اتنی معمولی تنخواہ سے شروع کرتے ہیں کہ یہ تنخواہ کسی افیسر ،کارخانہ دار، ٹھیکہ دار یا کاروباری بندے کے کسی بچے کی جیب خرچ سے بھی کم ہوتی ہے۔مانتے ہیں کہ کسی باصلاحیت فرد کو اس کی صلاحیت کا معاوضہ ملے مگر ایسا نہیں ہوتا۔ٹھیکہ دار کارخانہ دار شاید اپنا نام نہیں لکھ سکے۔ کوئی افیسر اپنی کرسی پہ اس انتظار میں ہو کہ اس کا پی اے یا کلرک ڈرافٹ لکھ کر اس کے سامنے رکھے اور وہ اس پہ دستخط کرے۔ کوئی قومی نمائندے کو ملک کے محکموں کے بارے میں صفر معلومات ہوں مگر ایک پرائمری استاد، ایک محکمے کا کلرک، ایک فوج اور پولیس کا سپاہی، ایک چوکیدار مالی، جو بڑوں کے جیب خرچ والی تنخواہ لیتا ہو اور اس ملک کی تعمیرو ترقی میں اپنی جان کھپاتا ہو اس کا یہ معاوضہ آئی ایم ایف کو نظر آتا ہے۔اس کی محنت اور جان فشانی کی کوئی قیمت نہیں ہوتی لیکن اس کا عاوضہ قومی خزانے پہ بوجھ ہے۔

حکمرانوں کا کام قرض لے کر اپنی عیاشیوں میں اضافہ کرنا اور عوام کا معاشی قتل کرناہے۔عوام کا بھی وہ طبقہ جس کے ہنر کے بل بوتے یہ ریاست جی رہی ہے۔ ان پڑھ میکنک مشین کی مرمت کرتا ہے ڈگری ہولڈر انجینئر پیسے بٹور رہا ہے۔ پی ٹی سی استاذ قوم بنانے کی تگ و دو میں ہے اور محکمے کے ذمہ دار استاذ کے مساٸل پہ کان دھرنے کی بجاۓ اپنی عیاشیوں میں لگا ہوا ہے۔مزدور کارخانوں میں جتے ہوۓ ہیں مالک کو اپنی فکر ہے۔ حکمرانوں کے پسماندہ علاقوں کےدورے پہ خطیر رقم ضاٸع ہوتی ہے علاقے کی پسماندگی اسی طرح برقرار ہے۔اگر بجلی کے بلوں میں، تیل کی قیمتوں میں، ٹیکسی کے کرایوں میں ،سیمنٹ سریے کی قیمتوں میں اضافہ ہو تو حکومت کہتی ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط ہیں۔

معمولی نوکروں کی تنخواہیں،آئی ایم ایف کی شرائط میں پہلے نمبر پہ ہیں ۔دلیل یہ دی جاتی ہے کہ دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں ایسا ہوتا ہے لیکن دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں عوام کو وہ سہولیات ہیں کہ ان کو پیسوں کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی ۔ہمارے ہاں یہ معمولی نوکر صرف اس پنشن کے سہارے اور اسی امید پہ نوکری کرتا ہے کہ اس کے بڑھاپے کا سہارا یہی پنشن ہو لیکن یہ آئی ایم ایف کو نظر آتا ہے کہ ان بے سہاروں کے منہ سے نوالا چھین کر ان مگر مچوں کے منہ میں ڈالا جاۓ ۔دوسری طرف وطن عزیز میں ایسے مراعات یافتہ پنشنر بھی ہیں کہ جن کی ایک ماہ کی پنشن کی رقم کئی معمولی پنشنرز کے لیے کافی ہوگی دوسرے مراعات کو چھوڑ ہی دیں۔آئی ایم ایف کو صرف یہ معمولی پنشنرز نظر نہیں آتے بلکہ اس کو بتایا جاتا ہے کہ ان کی پنشن پر اتنی رقم خرچ ہوتی ہے اور یہ خزانے پر بوجھ ہے۔

معمولی پنشنر کو یقین ہے کہ آئی ایم ایف کے پالیسی ساز بھی شاید انسان ہیں ان کی کوئی ایسی شرائط نہیں ہوں گی اگر ہوں گی تو اس کا مطلب یہ یے کہ وہ اس ریاست کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتے ہیں۔ ہماری قسمت میں اگر اس طرح غربت ہی ہے تو سب کی قسمتوں میں کیوں نہیں؟ اگر ایسا نہیں تو اس کو فلاحی ریاست کے نام سے کیوں پکارا جاۓ ۔آئی ایم ایف کو یہ کیوں نظر نہیں آتا کہ سارے حکمران کی تاریخ مالی بدعنوانیوں سے بھری پڑی ہے کیا اس کو احساس نہیں کہ یہ مال اس کا دیا ہوا ہے۔

آئی ایم ایف کو ہماری بے غیرتی پہ ہنسی آتی ہوگی کہ یہ ملک خود اللہ کی دی ہوئی نعمتوں سے بھرأ پڑا ہے لیکن کاش یہ خداترس انسانوں کے ہاتھوں لگے۔ حکومت کی نمایان پالیسی بس پنشن اصلاحات ہیں وہ بھی بڑے بڑوں کے لیے نہیں۔ ابھی استاذ سے لے کر کلرک تک ہر محکمے کے سرکاری مقہورو مجبور ملازمین حکمرانوں کے محلات (پارلیمنٹ،اسمبلی) کے سامنے فریادی بن کے دھائی دینے جارہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ماضی، جن کی جوانی جن کی صلاحیتیں ،جن کا خون پسینہ اس ملک کی تعمیرو ترقی میں کام آۓ ہیں۔ یہ اس ریاست کے وہ مخلص مجاہدین ہیں جنہوں نے اس ریاست کے لیے اپنی عمریں صرف کی ہیں۔ یہ یقینا مظلوم ہیں ان کی دھائی خدا کے نزدیک وقعت رکھتی ہے اس لیے کہ مظلوم کی فریاد عرش ہلاتی ہے۔۔

You might also like

Leave a comment

error: Content is protected!!