ہسپانیہ میں چند روز
داد بیدا د
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
یہ روم کی سرد صبح تھی فاروق نے ٹکٹ دیکھ کر کہا میں سویرے نکلنا ہے 7بجے نے کے لئے گوشے میں ہسپا سپین اور سپین کے پہلو میں پر تگال کی تصویر نما یاں ہوئی۔ تاریخ کے اوراق میں افریقی ملک مرا کش اور مر اکش کے بر بر قبائل کی یا د یں سامنے آئیں۔ روم کے ائیر پورٹ سے اڑان بھر نے کے بعد جہاز نے بحیرہ احمر اور بیچ کے دو چھوٹے جزائیر کے اوپر سے پرواز کا آغاز کیا۔ ڈھا ئی گھنٹے پل بھر میں گذر گئے اور ہم سپین کے ساحلی شہر ملا گہ کے ائیر پورٹ پر اتر گئے۔
یہ شہر جبل الطا رق یا جبرالٹر سے دور ہے تا ہم غر نا طہ اور قرطبہ کے قریب واقع ہے ہماری پہلی منزل غرناطہ کا شہر تھا۔ سفر کروانے والی ایجنسی نے ٹو ڈی کار کی چابی فاروق کو دیدی اور ہم نے غرناطہ کی طرف سفر کا آغاز کیا۔ ڈیڑھ گھنٹے کے سفر میں بڑی شاہراہ کے دونوں طرف زیتون کے باغات کا لا متناہی سلسلہ نظروں کے سامنے تھا۔ لاکھوں جریب زمین پر یہ باغات سیدھی قطاروں میں لگائے گئے ہیں لیکن ہم باغات کی سیر کے لئے نہیں آئے تھے۔ فاروق پیشے کے لحا ظ سے چارٹر ڈ اکاونٹنٹ ہے مگر اپنے گہرے مطالعے کے لحاظ سے تاریخ اور ادب کاتجربہ کار پروفیسر لگتا ہے۔ واقعات سے نتاءج اخذ کرنے اور اسباب سے لیکر انجام تک جھانکنے کا ہنر بھی جانتا ہے۔ سپین کو ہسپانیہ کا نام یونانینوں نے دیاتھا۔ چھٹی صدی قبل از مسیح میں یونانی اس کواسپانہ کہتے تھے، سپانہ سے ہسپانیہ بن گیا اس کا ایک نام اندلس بھی ہے یہ عام عربوں کے ہاں مقبول ہے غرناطہ اور قربطہ کے شہروں میں اندلیسیہ کے نام سے بورڈ اور تختیاں نظر آتی ہے۔
ہماری دلچسپی ہسپانیہ پر مسلمانوں کی کم و بیش آٹھ سو سال حکومت کی تاریخ اور اس تاریخ کے بڑے عوامل ، نتاءج اور اثرات میں تھی یہ اٹھویں صدی عیسوی کا واقعہ ہے عرب اور افریقہ میں مسلمانوں کی اموی خلا فت کا دور تھا خلیفہ عبد الما لک کے دور میں مشرق اور مغرب میں مسلمان فاتحین کی رزم آرائیاں کا میا بی سے جا ری تھیں نقتیبہ ابن مسلم ،محمد بن قاسم کے معرکے فتو حا ت کے جھنڈے گاڑ رہے تھے جب ان کے بیٹے ولید بن عبد الملک خلیفہ بنے تو یو رپ پر پہلی لشکر کشی کے لئے مو سیٰ بن نصیر والی مرا کش کے سپہ سالار طارق بن زیا د کو سپین کو معرکے پر بھیجا گیا انہوں نے ابنا ئے جبرالٹر کو کشتیوں کے ذریعے عبور کر کے اپنی فوج سپین کی ساحل پر اتار نے کے بعد کشتیوں کو جلا نے کا حکم دیا حکم پر عمل ہوا تاہم کسی مر د خُر نے سوال اٹھا یا کہ ہم واپس کسیے جائینگے طارق بن زیا د نے کہا کہ ہم واپس نہیں جائینگے علا مہ اقبال نے طارق کے جواب کو فارسی شعر کے ایک مصرعے میں یہ کہہ کر امر کر دیا ہے ’’ ہر ملک ، مُلک ما ست کہ مُلک خدائے ما ست ‘‘ یہ 710ء اور 711ء کے واقعات ہیں مسلمانوں نے 1492ء تک ہسپانیہ پر حکومت کی غر نا طہ اور قرطبہ میں مسلمان خلیفہ اور سلطان کے نا م کا خطبہ پڑ ھا جا تا تھا غر نا طہ میں الحمرا نا م کا عظیم الشان محل اور قرطبہ میں اموی مسجد دمشق کے نقشے پر تعمیر کی ہوئی خوب صورت مسجد اس دور کی یا د گاروں میں قابل ذکر ہیں۔
مسلمانوں کے اقتدار کو زوال آنے کے بعد یورپی باد شاہوں نے مسا جد کو گر جا گھروں میں تبدیل کیا پھر بھی طرز تعمیر کے لحا ظ سے مسا جد کی شان و شوکت آج تک قائم ہے ان کی جگہ نما ز کے لئے قرب و جوار میں نئی مسا جد تعمیر ہو چکی ہیں آٹھویں صدی کے آغاز کا دور ہ میں یا د دلا تا ہے کہ اس زما نے میں مسلمان متحد تھے سپین اور فرانس میں باد شاہ کے خلا ف اندرونی سازشیں عروج پر تھیں کنگ راڈرک کے خلاف ان کے اپنے رشتہ داروں نے نے مسلمانوں کا ساتھ دیا، راڈرک ما را گیا اور ہسپا نیہ پر مو سیٰ بن نصیر کا قبضہ ہوا الحمرا محل کا ایک نا م نصیر محل بھی ہے بارھویں صدی کے بعد مسلمانوں کے اندر نفاق نے جنم لیا۔ مراکش اور اطراف میں المدارون ، الرا بطوناور المو بادون کے نا م سے متوازی جتھوں نے اپنا اپنا علم بلند کیا ، ہسپا نیہ کا سلطان ابو عبد اللہ کمزور ہوا تو فرانس کی ملکہ ازبیلہ نے اس کمزور ہوا ، توکنگ فر ڈیننڈ اور ملکہ ازا بیلہ نے ہسپا نیہ میں مسلمانوں کے اقتدار کا خا تمہ کیا علا مہ اقبال کو ہسپانیہ سے عشق تھا وہ اندلس کو مخا طب کر کے درد مندی کے ساتھ کہتا ہے اے رود بار اندلس وہ دن ہیں یاد تجھ کو، اترا تیرے پا نیوں میں جب کا رواں ہمارا۔