ریاست کا پہلا گریجویٹ
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
محمد جناب شاہ ( تمغہ خدمت) سابق ریاست چترال کا پہلا گریجویٹ تھا جنہوں نے 1943ء میں اسلا میہ کالج پشاور سے بی اے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ بظاہر یہ کوئی بڑی بات نہیں مگر 100سال پہلے کا جعرافیا ئی ماحول اور اُس وقت کی سماجی و معاشرتی حالت پر ایک سرسری نظر دوڑانے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہت بڑا کارنامہ تھا۔ اُس کے گاوں زوندرانگرام تریچ سے ریاستی پائیہ تخت چترال تک پہنچنے کے لئے 3دنوں کا پیدل سفر کرنا پڑتا تھا۔ چترال سے چکدرہ7دنوں کی پیدل مسافت کا سفر تھا محمد جناب شاہ کی پیدائش کے صرف ایک سال بعد ان کا باپ محمد عارف چترال افغان جنگ میں برکوٹ کے مقام پر شہید ہوا۔ محمد جناب شاہ نے اسلا میہ سکول نوشہرہ سے مڈل سٹینڈرڈ کا امتحا ن 1936ء میں پاس کیا۔ میٹرک کا امتحان 20سال کی عمر میں ہائی سکول چمکنی پشاور سے 1938ء میں پاس کیا۔ انہوں نے عر بی اور فارسی کی تمام متداول کتابیں نامور اساتذہ سے پڑھ کر کامل استعداد حاصل کی۔ ہاکی کے کھیل میں نام پیدا کیا دوڑ کے مقابلوں میں میڈل حاصل کئیے۔ لانگ جمپ، ہائی جمپ، رسیوں پر چڑھنے، رسی پر چلنے اور دیگر جسما نی کھیلوں میں نامور اتھلیٹ قرار پائے۔ انتہائی مالدار لوگوں کے بچوں کے ساتھ مقابلہ کرکے اسلامیہ کالج جیسے بڑے ادارے میں داخلہ لیا۔ یہ سب خواب اور خیال معلوم ہوتا ہے اس قدر ہشت پہلو شخصیات بہت کم ملتی ہیں۔
نفسیات کی اصطلا ح میں ایسی شخصیت کو ہمہ جہت کہا جا تا ہے انگریزی میں اس کے لئے ورسٹائیل کا لفظ استعمال ہوتا ہے سما جی علوم میں ایسی شخصیت کو ہر فن مولا کہا جاتا ہے محمد جناب شاہ نے خود کو کبھی وسائل کا محتاج نہیں ہونے دیا بلکہ خا لی ہاتھ کیساتھ بڑے بڑوں کا مقا بلہ کیا اور ہر میدان میں کامیاب ہوا ان کی سوانح عمری کے ابتدائی سال بہت مشکل تھے انہوں نے مسجدوں میں قیا م کر کے سکولوں میں تعلیم حا صل کی ، میٹرک کے بعد ایک سال فو ج کے محکمہ رسد میں بطور کلر ک کام کیا۔
اس دوران اسلا میہ کا لج میں داخلہ ملا تو سکا لر شپ حاصل کیا 1941 میں ایف ایس سی کیا اور تھرڈ ائیر آرٹس میں داخلہ لیا 1942 میں آپ کو برٹش انڈیا کی ائیر فورس میں کمیشن کے لئے منتخب کیا گیا لیکن آپ کے کاغذات چال چلن کی تصدیق کے لئے آبائی وطن بھیجد یے گئے تو آبائی ریا ست کی انتظا میہ نے اس بناء پر تصدیق سے انکار کیا کہ آپ کے اباو اجداد کا تعلق حکمران خا ندان سے نہیں تھا یہ واقعہ بڑا دل شکن تھا مگر آپ نے حو صلہ نہیں ہارا 1943ء میں آپ نے بی اے کر لیا تو اس کی گونج ریا ستی انتظا میہ کے ایوانوں میں پہنچی ریا ست کا پہلا اینگلو ورنیکو لر سکول 1938ء میں کھل چکا تھا ہز ہائی نس نا صرالملک نے افتتاح کیا تھا، پشاور، دہلی اور بھوپال سے مڈل یا میٹرک پا س کر کے آنے والے اساتذہ مقرر تھے چترال کے اسسٹنٹ پو لیٹکل ایجنٹ کپٹن ڈی جی تھورن بر گ نے آپ کو چترال بلا کرسکول میں پہلا گریجو یٹ استاد مقرر کیا ایک سال بعد میجر ایم ڈبلیو ایچ واءٹ نے آپ کو سکول کا ہیڈ ماسٹر مقرر کیا آپ بحیثیت استاد اور سر براہ سکول کو شہرت کی بلندیوں پر لے گئے آپ کمرہ جماعت میں طلباء کے ساتھ مشفقانہ اور دوستا نہ رویہ رکھتے تھے، انگریزی اردو اور ریا ضی پڑھا تے تھے مگر یک طرفہ درس نہیں دیتے تھے طلباء سے بھی سبق سنتے تھے۔ تلفظ کی اصلا ح کر تے تھے، کا پیاں چیک کر تے تھے ہر طالب علم کو نام سے جا نتے اور ان کے گھریلو حا لات سے واقفیت رکھتے تھے کھیل کے میدان اور جسما نی ورزش میں خود سامنے آکر نمو نہ دیتے تھے کھیلوں میں طلبہ کے ساتھ شریک ہو تے اور ان کی حو صلہ افزائی کر تے تھے مگر اسا تذہ کے لئے بہت سخت گیر ہوا کر تے تھے، معمولی غلطی ہو جا تی تو تنخوا ہ کا ٹتے اور کڑی سزائیں دیتے تھے۔
ان کی شبانہ روز محنت اور قابلیت کو دیکھ کر اے پی اے عزت بخش اعوان نے 1953 میں آپ کو ریا ست کا افیسر تعلیم مقرر کیا اس حیثیت میں آپ نے ریاست کے طول و عرض میں سکول کھولے۔ آپ گھوڑے پر سفر کر تے ہوئے دور دراز دیہات کے سکولوں کا سال میں دوبار معا ئنہ کر تے تھے ہر سکول میں پورا دن گذارتے طلباء کے ساتھ تبا دلہ خیال کر تے استاد کا کام دیکھتے۔ سکول کاریکارڈ چیک کرتے۔ مو قع پر ہدایات دیتے استاد سے کوئی کوتاہی ہوجاتی تو سزا بھی تجویز کر تے۔
آپ کی خدمات کے اعتراف میں 23مارچ 1961کو حکومت پا کستان نے آپ کو تمغہ خد مت کا سول اعزاز عطا کیا ، اگست 1970ء میں آپ نے آخری بار سکولوں کا معا ئنہ کیا ہر سکول میں آپ نے طلباء سے خطاب کر کے ان کو خبر دار کیا کہ آنے والا دور تعلیم کے میدان میں سخت مقا بلے کا دور ہوگا جو محنت کرے گا وہی کامیاب ہوگا۔ یکم جنوری 1971ء کو آپ کی ملا زمت کے 7سال با قی تھے اور آپ صو بے کے دو سینئر ترین افیسروں میں شما ر ہو تے تھے سینئر ممبر بورڈ آف ایو نیو ظفر علی خان کا لج اور سروس میں آپ سے جو نئیر تھے۔ صوبائی حکومت نے آپ کو جبری ریٹائر کر دیا۔ محمد جناب شاہ ( تمغہ خدمت) درس و تدریس میں مثالی استاد اور انتظا می امور میں بھی مثالی منتظم تھے۔ انہوں نے اپنی مخلصانہ کو شش اور انتھک محنت سے سابق ریا ست چترال میں جدید تعلیم کے چشمے بہا دیے اور نئی نسل کو بہتر مستقبل کی راہ دکھا ئی ان کا طرزعمل آج بھی نو جوا نوں کے لئے مشعل راہ ہے۔