داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
انتخابات کے بعد وفاق اور صوبوں میں مختلف پارٹیوں کی مخلوط اور اکیلی حکومتیں بن چکی ہیں شخصیات کے ٹکراو کو چھوڑ کر پا لیسی اصول پر بات کرنے والے کہتے ہیں کہ حکومت میں آنے والی چھوٹی یا بڑی جماعتوں کے سامنے بڑی ازمائش کی گھڑی آگئی ہے یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے پیش کر غافل عمل کوئی اگر کوئی دفتر میں ہے اگرچہ مخلوط حکومتوں میں کئی جماعتیں اقتدار میں آچکی ہیں حکومتی کارکردگی کا اصل مقابلہ مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی اور سنی اتحاد کونسل کے پر دے میں چھپے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ہے۔
انتخابات کے بعد وفاق اور صوبوں میں مختلف پارٹیوں کی مخلوط اور اکیلی حکومتیں بن چکی ہیں شخصیات کے ٹکراو کو چھوڑ کر پا لیسی اصول پر بات کرنے والے کہتے ہیں کہ حکومت میں آنے والی چھوٹی یا بڑی جماعتوں کے سامنے بڑی ازمائش کی گھڑی آگئی ہے یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے پیش کر غافل عمل کوئی اگر کوئی دفتر میں ہے اگرچہ مخلوط حکومتوں میں کئی جماعتیں اقتدار میں آچکی ہیں حکومتی کارکردگی کا اصل مقابلہ مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی اور سنی اتحاد کونسل کے پر دے میں چھپے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ہے۔
کار کردگی کو پانچ محاذوں پر جانچا جا رہا ہے پہلا محاذ قانون کی حکمرانی دوبارہ بحال کرنے کا ہے، دوسرا محاذ مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام کو سہولیات فراہم کرنے کا ہے تیسرا محاذ پروٹوکول اور مفت پٹرول، مفت گیس، مفت بجلی کی عیاشیا ں ختم کرکے سرکار کے غیر ضروری اخراجات بچانے کا ہے چوتھا محاذ قرضوں میں کمی لانے کا ہے، پانچواں محاذ سب سے اہم ہے اور یہ محاذ بے جا محاذ ارائی کو ختم کرکے سیاسی رواداری، برداشت اور بردباری کی جمہوری سیاست کے احیاء کا محاذ ہے
یہ بہت نازک حساس اور اہم محاذ ہے بڑی ازمائش یہ ہے کہ ان محاذوں پر کس جماعت کو سرخروئی اور کامیابی ملتی ہے اور کون حسب سابق ناکام و نامراد لوٹتا ہے۔
یہاں مہنگا ئی سے پہلے قانون کی حکمرانی کا ذکر آیا تو بہت سے لو گ حیرت کا اظہار کر ینگے مگر حقیقت یہ ہے عدالتی نظام میں بگاڑ آنے کے بعد قانون کی حکمرانی ختم ہو چکی ہے اس وجہ سے آڑھت دھڑت، کمیشن ایجنٹ اور دوسرے شرکائے کار مل کر غذائی اجناس کی بلیک مارکیٹنگ کر تے ہیں ملزم کو پکڑ نے اور جرم ثابت ہونے پر سزا دینے کا کوئی سسٹم مو جو د نہیں ہے جیسا کہ کہا وت ہے مچھلی جب سڑ تی ہے تو اوپر سے سڑ نا شروع ہو تی ہے قانون کی حکمرانی کا سسٹم بھی اوپر سے برباد ہو چکا ہےاور یہ تبا ہی نچلی سطح تک سرایت کر چکی ہے۔
حکمران اپنے حلف کی روسے اپنا ذاتی مفاد قربان کر کے قانون کو کام کرنے دینگے تو ملک میں قانون نظر آئیگا اس طرح مہنگائی، غر بت اور بے روز گاری سے عوام کو نجا ت دلانا ہر حکومت کی ترجیحات میں شامل ہو تی ہے اس کا دارو مدار بھی حکمرانوں کے طرز عمل پر ہوتا ہے اگر حکمران اپنے ذاتی مفادات ، کا روباری اور گروہی مفادات کو پس پشت ڈال کر عوام کی خد مت کو مقدم قرار دینگے تو عوام کو ریلیف ملے گا، ملک میں بجلی، گیس، تیل، گندم، گھی، پھلوں اور سبزیوں کی کوئی کمی یا قلت نہیں ہے، سرکاری، نیم سرکاری اور غیر سرکاری مارکیٹ میں شیطانی چکر چلتا ہے اس چکر میں 200یو نت بجلی کا 25ہزار روپے بل آتا ہے گیس اور تیل کا یہی حال ہوتا ہے منڈیوں میں سستی چیزوں پر بھتہ لگنے سے وہ مہنگی ہوجا تی ہیں بڑی آزمائش یہ ہے کہ کونسی حکومت عوامی مفاد میں اس شیطانی چکر کو ختم کر کے آڑھتیوں اور کمیشن ایجنٹوں کو لگا دیتی ہے اور کس کی حکومت میں عوام کو ریلیف ملتا ہے اسی طرح پروٹو کول کے اخراجات، مفت بجلی، مفت پٹرول، مفت گیس اور دیگر مراعات کا یکسر اور فوری خا تمہ بھی بڑی آزمائش ہے اور یہ بھی نظرآنے والی آزمائش ہے، قرض کی معیشت ملک اور صو بوں کے لئے زہر قاتل ہے اور گذشتہ 10سالوں میں وفاق اور صوبوں کی حکومتوں نے قرضوں میں کمی کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا بلکہ اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہر حکومت نے مزید قرضہ لیا یہاں تک کہ نگران حکومتوں نے بھی قرضوں میں اضافہ کیا۔
مو جودہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہماری نئی حکومتیں پرانے قرضوں میں کمی لانے کی حکمت عملی تیار کریں اور اگلے 5سالوں کے لئے قرض لینے پر پا بندی لگائیں کوئی نیا قرض نہ لیں، آنے والے مالی سال کا بجٹ بھی قرض کے بغیر تیار کریں یہ بھی بڑی آزمائش ہے آخری ازمائش سیا سی سوچ، سیا سی فکر اور سیا سی اسلوب کی ہے، سیاست اور جمہوریت میں اختلا ف رائے کو دشمنی کا نام نہیں دیا جاتا، برداشت، رواداری اور مفاہمت سے سیا سی راستے ہموار ہو تے ہیں اور جمہوریت کو پھلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے سب سے کڑی آزمائش یہ ہے کہ حزب اختلاف کے ساتھ کون ہاتھ ملا تا ہے اور اختلاف رائے کون برداشت کرتا ہے۔


Unfortunately, the coalition government lacks coherent vision of judicial reforms, public interest, political stability and economic development without IMF , so all these five goals seem beyond our expectations.