ممبئی سے پشاور تک
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
سردار علی سردار امان کا شمار صاف ستھری زندگی گذارنے والی نمایاں پاکستانی شخصیات میں ہوتا ہے انہوں نے چترال میں آنکھ کھولی ممبئی میں تعلیم حاصل کی دنیا جہاں کی سیاحت کی اور پشاور میں30دسمبر 2023 کو وفات پائی 1975ء میں بہت بڑے عہدے پر فائز تھے مجھے سرکاری ملازمت میں آئے دو دن ہوئے تھے دفتر کے ایک ساتھی نے کہا میرے ساتھ آو سردار علی سردار امان کے پاس ایک سفارش لیکے جانا ہے میں نے کہا میری کوئی واقفیت نہیں اُس نے کہا وہ سب چترالیوں کو جانتا ہے تمہیں بھی پہچان لے گا
میں نے حامی بھری یونیورسٹی ٹاون میں ڈپٹی پوسٹ ماسٹر جنرل نارتھ کے دفتر جاکر پرچی پر نام لکھوا کر اندر بھیجدیا فوراً بلا وا بھی آگیا اندر داخل ہوا تو بہت بڑا دفتر تھا صاحب نے اپنی کرسی سے اُٹھ کر مصافحہ کیا خلاف توقع انہوں نے تعارف کی نوبت آنے نہ دی کام اور خدمت کے بارے میں پوچھا تو بت یا کہ ایک پوسٹ ماسٹر زیر عتاب ہے اس کو معافی دے کر نوکری پر بحال کرانا ہے، صاحب نے کہا جرم بہت بڑا ہے معافی کے لائق نہیں مگر سفارش تگڑی ہے اس لئے نوکری پر بحال کرتا ہوں اپنے بچوں سے کہو کہ میرے بھائی کو دعائیں دیں، پہلی ملا قات میں ’’تگڑی سفارش‘‘ اور ’’بھائی‘‘ کے دوبڑے تمغے ملنے پر میں حیراں ہوا چائے بسکٹ سے میری تواضع ہوئی اور تعارف کے بغیر صاحب نے خود چل کر دروازے پر مجھے رخصت کیا اُس وقت میری عمر 23سال تھی ایک بچے سے انہوں نے حسب نسب، قبیلہ، مذہب اور مسلک کا کوئی سوال نہیں پوچھا جس کام سے گیا تھا وہ کام ہو گیا یہ حیرت کا مقام تھا
پشاور میں رہ کر دس بارہ سال گذر گئے تو سینکڑوں نوجواں مجھے ملے جو صاحب سے ملنے گئے تھے بے روز گار تھے جز وقتی کام ڈھونڈ کر اعلیٰ تعلیم کے لئے داخلہ لینا چاہتے تھے صاحب نے کسی ایک سے بھی قبیلے، کنبے، مذہب، مسلک وغیرہ کا سوال نہیں پوچھا ہر ایک کو بھائی کہا اور پکی سرکاری نوکری پر لگاکر دفتر سے اس طرح رخصت کیا کہ خود دروازے پر آکر ’’خوب پڑھو، محنت کرو اور بڑا آدمی بنو‘‘ کے تین کار آمد جملوں کی نصیحت کے ساتھ رخصت کیا یہ سردار علی سردار امان کا خا ص اسلوب تھا وہ بے روز گار نوجوانوں اور طالب علموں کو حوصلہ دیتے تھے ان کی عزت نفس کا بڑا خیال رکھتے تھے اور اپنے عمل سے یہ تاثر دیتے تھے کہ اچھا انسان ہونا معنی رکھتا ہے کنبہ، قبیلہ یا مسلک معنی نہیں رکھتا بڑائی کرسی میں نہیں خدمت میں بڑائی ہے جس نوجوان کو آج سکیل 5یا 7 میں بھرتی کیا اس کو دروازے پر رخصت کرنے سے گریڈ 20یا 21کے افیسر کی شان میں کمی نہیں آئیگی یوں وہ خد مت کے ذریعے عظمت کمانے والوں کے لئے مشعل راہ کی حیثیت اختیار کرگئے
سردار علی سردار امان 1935ء میں پیدا ہوئے تھے 30دسمبر 2023ء کو 88سال کی عمر میں انہوں نے وفات پائی 7سال کی عمر میں آپ نے اپنے والد کے ساتھ ہندوستان کا سفر کیا ہندوستان کے شہر ممبئی میں ان کا داخلہ میونسپلیٹی سکول میں ہوا جو اردو میڈیم تھا پھر آپ کو سینٹ میریزکے انگلش میڈیم سکول میں داخل کیا گیا جہاں سے آپ نے 1951ء میں میٹرک پاس کیا آپ کے چچا زاد بھا ئی افضل علی افضل امان بھی آپ کے ہم جماعت تھے میٹرک کے بعد چترال آکر آپ نے مڈل سکول میں پڑھا یا مڈل سکول کے پرنسپل کی حیثیت سے بھی خد مات انجام دیے آپ کو جے وی کورس کے لئے ہری پور بھی بھیجا گیا لیکن دل نہیں لگا واپس کراچی جا کر جز وقتی ملازمت کے ساتھ تعلیم کا سلسلہ جا ری رکھا اور ایم اے اکنامکس کے بعد سول سروس آف پاکستان کا امتحان پاس کر کے پوسٹل سروس میں شمولیت اختیار کی سندھ، بلوچستان، اور پنجاب میں اہم عہدوں پر فائز رہے ڈپٹی پوسٹ ماسٹر جنرل بن کر پشاور آئے پشاور کے دفتری کاغذات اور اخبارات میں ان کا نام غیر معمولی طور پر لمبا معلوم ہوتاتھا مگر اس نام کا پس منظر الگ تھا
ممبئی کے جس سکول میں آپ نے تعلیم کا آغاز کیا اس سکول کا دستور تھا کہ طالب علم کے باپ کا نام اُس کے نام کے ساتھ بطور لا حقہ لایا جاتا تھا سردار علی اُس کا اپنا نام تھا اور سردار امان باپ کا نام تھا اس طرح ان کا پورا نام سردار علی سردار امان ہوا نام کے مصداق اللہ کریم نے ان کو سرداری بھی عطا کی اور ان کے سایے میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں بے روز گار طالب علموں کو امان بھی ملتی رہی گریڈ 21 میں پاکستان پوسٹل سروسز کا پوریشن کے ڈائریکٹر جنرل کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوئے جہاں سے 1995ء میں آپ نے 34سال سروس کے بعد ریٹائرمنٹ لے لی اور پشاور میں سکونت اختیار کی سردار علی سردار امان کی شخصیت میں چار ایسی خصوصیات تھیں جو آپ کو دیگر ہم عصر افیسروں سے ممتاز کر تے ہیں پہلی خصو صیت انتھک محنت ، دوسری خصو صیت اعلیٰ پیما نے کی دیانت دار ی اور صداقت تھی، ان کے ساتھ ساتھ غریبوں سے محبت اور عوام کی خد مت بھی آپ کی نما یاں خصوصیات تھیں دوران سروس آپ نے چین، جا پان، بر طانیہ، اسٹریلیا اور فرانس کے سرکاری دورے بھی کئے تاہم آپ اُس سفر کو بہت یا د کر تے تھے جو سفر 1942ء میں بو نی چترال سے براستہ لواری دیر تک پیدل طے کیا تھا بو نی سے ممبئی پہنچنے میں کئی دن لگے تھے 1951ء میں ہندوستان سے براستہ اٹاری کھو کھرا پار پا کستان آگئے تھے ان کا سفر آخرت پا کستان کی بہت بڑی شخصیت کی جدائی کا صدمہ دے گیا ہے اللہ پا ک ان کی روح کو کروٹ کروٹ سکون اور راحت نصیب کرے۔
Allah pak maghfirat nasib farmain.
Ameen