چترال (گل حماد فاروقی) تحصیل میونسپل انتظامیہ چترال کے عملہ کو پچھلے چھ ماہ سے تنخواہیں نہ ملنے پر 135 لوگوں کا پچھلے دس دنوں سے ہڑتال جاری ہے۔
صفائی والے عملہ کی ہڑتال سے چترال میں ویمن اینڈ چلڈرن ہسپتال کے علاوہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال، شاہی مسجد روڈ، اتالیق چوک اور محتلف بازار گندگی کے ڈھیر میں بدل گئے جہاں گرمی کی وجہ سے پڑی ہوئی گندگی سے تعفن اور بدبو سے راہ گیروں کو نہایت مشکلات کا سامنا ہے۔
ٹی ایم اے کا عملہ نے تحصیل میونسپل آفیسر کے دفتر کو بھی تالہ لگایا ہوا ہے اور اس کے دفتر کے سامنے دھرنا دیا ہوا ہے۔
ہمارے نمائندے نے ہڑتالی کیمپ کا دورہ کرکے ان سے ان کی موقف جاننے کی کوشش کی۔ عمر اتیق کا کہنا ہے کہ میں پچھلے تیرہ سالوں سے ٹی ایم اے میں درجہ چہارم ملازم ہوں۔ ہمیں پچھلے چھ مہینوں سے تنخواہیں نہیں مل رہی ہے۔ ہم نے اپنے بچوں کیلئے نہ تو چھوٹی عید پر نہ بڑی عید پر نئے کپڑے اور جوتے خریدے۔ ہمارے آس پاس کے لوگ بڑی عید پر قربانی کررہے تھے مگر ہماری تنخواہیں نہ ہونے کی وجہ سے ہم صرف ان کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ کر مایوس ہورہے تھے۔
زاربہادر خان ان کا سپر وائزر ہے ان کا کہنا ہے کہ ہم دکانداروں سے ادھار لے لے کر اب ہم شرم کے مارے اس راستے سے بھی نہیں گزرسکتے کیونکہ جب ہم دکان کے سامنے سے گزرتے ہیں تو دکاندار اپنے ادھار کا تقاضا کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات پر افسوس ہورہا ہے کہ پورے شہر کی صفائی ستھرائی ہم کررہے ہیں ہم پچھلے دس دنوں سے ہڑتال میں بیٹھے ہوئے ہیں مگر ابھی تک نہ ڈپٹی کمشنر نہ اسسٹنٹ کمشنر نہ کوئی اور ذمہ دار بندہ ہمارے پاس آیا تاکہ ہمارا دکھڑا تو سنے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمارا جائز مطالبہ پورا نہیں ہوا تو ہم راست قدم اٹھانے پر مجبور ہوں گے جس میں سڑک کو بلاک کرنا اور لوگوں کو پینے کی پانی کی فراہمی بھی معطل کرنا شامل ہے۔
خورشید علی سینٹیشن سپر وائزر کا کہنا ہے کہ پورے چترال بازار کی صفائی کا ذمہ داری ان کی ہے ان کے پاس 18 خاکروب اور چار گاڑیاں ہیں۔ ہمیں پچھلے چھ مہینوں سے تنخواہ نہیں ملتی جس کی وجہ سے ہم پچھلے دس دنوں سے ہڑتال میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر نہایت افسوس کا اظہار کیا کہ ابھی تک کسی بھی ذمہ دار افسر نے ہمارا حال احوال تک نہیں پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ دس دنوں سے بازار میں گند پڑا ہے اور بد بو کی وجہ سے لوگوں کو نہایت مشکلات کا سامنا ہے ہمیں لوگوں کی مشکلات کا احساس ہے مگر ہم کیا کرے ہم بھی بال بچوں والے ہیں۔ ہمارے گھر میں بیوی بچے بھوک سے نڈھال ہیں۔
عبد الرحیم بھی ٹی ایم اے کا ملازم ہے جو ہڑتالی کیمپ میں بیٹھا ہوا ہے ان کا کہنا ہے کہ ہم تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے مجبوراً ہڑتال میں بیٹھ گئے مگر ابھی تک کسی نے ہمار ا حال احوال تک نہیں پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ہمیں تنخواہیں نہیں ملتی ہمارا ہڑتال جاری رہے گا۔
اس موقع پر بعض سیاسی کارکن اور وکلاء برادری نے بھی ہڑتالی کیمپ کا دورہ کرکے ان کے ساتھ اظہاری یکجہتی کیا۔
اس سلسلے میں تحصیل میونسپل آفیسر محمد حنیف سے بھی رابطہ کرکے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی جن کا کہنا تھا کہ انہوں نے ان ملازمین کی تنخواہ جاری ہونے کیلئے حکام بالا تک تحریری رپورٹ بھیجا ہے اور ہماری کوشش ہوگی کہ ان درجہ چہارم ملازمین کو جو سارا دن شہر کی صفائی ستھرائی کرتے ہیں ان کی تنخواہیں جلد سے جلد جاری ہوسکے۔ ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ بعض حلقے یہ ابھی الزام لگا رہے ہیں کہ ٹی ایم اے چترال میں سفارشی بنیادوں پر ڈیڑھ سو سے زیادہ ملازمین بھرتی کئے گئے جن میں سے اکثر کام نہیں کرتے اور گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ہم نے صوبائی حکومت کے ہدایت پر 70 ملازمین کو فارغ کیا ہے۔