بونی ہسپتال کا ایک دل خراش واقعہ

چترال فلور ملز اور انتظامیہ 

انتہائی افسوس کے ساتھ آج یہ لکھنا پڑ رہا ہے چترال کے سادہ لوح عوام کے جائز حقوق دن دہاڑے غصب کرنے کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ ایک طرف صورت حال یہ ہے کہ  لوگ مٹھی بھر آٹے کو ترس رہے ہیں اور دوسری طرف عوام کو ملنے والی سبسیڈائزڈ گندم بے چارے عوام کو دینے کے بجائے  چند فلور ملز مالکان کو دی جاتی ہے.

اس عوامی ریلیف سے چند ملز مالکان خطیر منافع کما رہے ہیں. اس معاملے میں انتظامیہ ان چند افراد کیلئے سہولت کاری کے علاوہ اور کیا  کردار ادا کر رہا ہے، سمجھ سے بالاتر ہے۔
ذیل کی تفصیل سے آپ کے سامنے یہ بات بآسانی عیاں ہوگی کہ کس طرح اس معاملے میں عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے اور بے حسوں کا ٹولہ ظالموں کی گود میں نیم دراز ہو کر محو تماشا ہے۔ 
ایک متوسط فلور مل کو روزانہ کی بنیاد پر  اوسط کوٹہ 75 بوری عوامی سبسیڈایزڈ گندم دی جاتی ہے، جس کی قیمت 75*5800=435000(چار لاکھ پینتیس ہزار) بنتی ہے اب ان پچھتر بوریوں سے مل والے تین قسم کا آٹا بناتے ہیں. 
1: سرکاری آٹا کے نام سے 20 کلو کی تھیلی. یہ 75 بوری سے 272 تھیلی بنتی ہیں. جس کی مالیت 353600(تین لاکھ ترپن ہزار چھ سو ) بنتی ہے. 
2: فائن آٹا یہ مذکورہ کوٹہ سے 20 کلو والی 60 تھیلی بنتی ہیں یہ بازار میں دوکاندار کو 2400  میں ملتی ہے جس کی مجموعی قیمت مل والے کو 144000(ایک لاکھ چوالیس ہزار ) حاصل ہوتی ہے. 
3: چوکر، اس پچھتر  بوری کوٹہ سےچوکر کی 20 کلو والی 43 تھیلی بنتی ہے. ایک تھیلی نو سو میں فروخت کرنے سے اس کی مالیت 38700 بنتی ہے. 
پچھتر بوری کوٹہ سے مل والے کو ٹوٹل حاصل شدہ رقم 536300 (پانچ لاکھ چھتیس ہزار تین سو) بنتی ہے. مل والے کو پچھتر بوری گندم چار لاکھ پینتیس ہزار میں پڑی تھی. اب 536300 – 435000 کرنے سے مل والے کا اوسط نفع 1013000(ایک لاکھ تیرہ ہزار ) بنتا ہے. اس حاصل شدہ منافع سے روزانہ تخمینہ خرچہ 31000(اکتیس ہزار) منہا کرنے سے مل والے کو روزانہ 70300 کا تخمینہ نفع حاصل ہوتا ہے اور ایک مہینے میں 2109000 (اکیس لاکھ نو ہزار) کا نفع حاصل ہوتا ہے. 
(جن ملز والوں کا کوٹہ ڈبل ہے یعنی150 بوری روزانہ، ان کا نفع بھی ڈبل یعنی 42018000 (بیالیس لاکھ اٹھارہ ہزار روپے) تک جاتا ہے. 
اب آپ کو یہ بات  سمجھ آ گئی ہوگی کہ مل والوں کو یہ خطیر منفعت عوام کی سبسیڈائزڈ گندم سے حاصل ہوتی ہے. 
اگر صرف چترال ٹاؤن کو لیا جائے تو ٹاؤن چترال میں سو کی تعداد میں پن چکیاں اور چھوٹی فلور ملز موجود ہیں.
 کسی بھی علاقے سے چند افراد مل کر جب سرکاری گودام سے گندم کی بوریاں خریدنے اور  گاڑی میں گھر تک لے جانے میں ان کو دو سو روپے تک کرایہ لگتا ہے. اس کے بعد لوکل چکی سے ایک بوری پر پانچ سو روپے کا خرچہ آتا ہے. جس سے لوکل چکی والے کے ساتھ ساتھ بےچارہ گاڑی والے کو بھی فائدہ پہنچتا ہے. اور اس صورت میں ایک کلو آٹا تمام تر اخراجات کے ساتھ پینسٹھ روپے کا پڑتا ہے.
دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو فلور ملز کا سرکاری آٹے کی بیس کلو والی تھیلی کو گھر لے جاتے ہوئے کم از کم پانچ سو روپے کرایہ لگتا ہے اس طرح ایک کلو آٹا 90 (نوے روپے) کا پڑتا ہے اور اکثر اوقات ایک تھیلی سے زیادہ ملتی بھی نہیں ہے، اس ایک تھیلی کیلئے بھی غریب آدمی کو ہر ہفتے مزدوری چھوڑ کر لائن میں لگنا یا بے بسی کی تصویر بن کر انتظار میں رہنا پڑتا ہے. 
یہاں پر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ چند روز پہلے تک عوام کو ان کی سبسیڈائزڈ گندم  سرکاری گودام سے نہیں ملتی تھی بلکہ فلور ملز کے سرکاری آٹا لینے کا پابند کرنے کی کوشش کی جاتی تھی. اب عوامی احتجاج اور تحفظ حقوق چترال کے دھرنوں کے بعد عوام کو ان کی سبسیڈایزڈ گندم ملنے کی خبر بھی گردش کر رہی ہے. اس مستحسن اقدام پر ہم تحفظ حقوق چترال کے صدر پیر مختار اور ان کی جملہ ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں. 
اگر انتظامیہ والے چند ملز مالکان کو نوازنا چاہتے ہیں تو کم از کم غریب عوام کے منہ سے نوالہ چھین کر ان کو نہ نوازیں۔  
انتظامیہ کو یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے کہ یہ سبسیڈائزڈ گندم عوام کیلئے آتی ہے ملز مالکان کے کالے دھندے کے لئے نہیں. لہذا فلور ملز والوں کو  سبسیڈائزڈ گندم سے کوٹہ ہی نہیں ملنا چاہیے. 
اگر دیکھا جائے تو گندم خود خرید کر پن چکی سے پیسنے کی صورت میں چکی والا آٹانہ صرف سستا پڑتا ہے بلکہ ماہرین کے مطابق:
”چکی کے آٹے میں کیلیوریز، فائبر، فیٹ، کاربز، فاسفورس، پروٹین، کیلشیئم اور زنک پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ سب سے زیادہ فائدہ مند آٹا سمجھا جاتا ہے۔ اس کو کھانے سے کھانا جلدی ہضم بھی ہو جاتا ہے اور معدے کے مسائل بھی جلد ہی کنٹرول میں آ جاتے ہیں۔ ”
اخیر میں ہم عوام سے بھی یہ اپیل کرتے ہیں  کہ وہ گودام سے گندم خرید کر لوکل چکی سے آٹا بنوانے کی کوشش کریں تاکہ سستا اور صحت بخش غذا استعمال کر سکیں.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *