ماں تجھے سلام
گل عدن چترال
ہم مڈل کلاس گھرانوں میں ایک ہستی ایسی ہوتی ہے جو گھر کہ تمام تر ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے نازک کندھوں پر اٹھائے بڑی خوش اسلوبی سے اپنے فرائض ایسے مگن ہوکر نبھاتی ہے کہ اسے اپنے حقوق یاد بھی نہیں رہتے۔ایسا لگتا ہے وہ اس زمین پر صرف ہماری دیکھ بھال کی خاطر اتاری گئی ہے۔
گھر میں کچھ اونچ نیچ ہوجائے،گھر کا کوئی نقصان ہوجائے اس سب کی قصور وار بھی یہی ہستی ٹھرایی جاتی ہے۔ ہر کام وقت پر کرنا اور ہر ایک کی ہر ضرورت پوری کرنا بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔ یہ ہستی پاک کلام میں ماں کہلاتی ہے ۔ماں مشرق کی ہو یا مغرب کی، اپر کلاس کی ہو یا مڈل کلاس وہ یکساں قدر اور اہمیت رکھتی ہے یکساں جذبات رکھتی ہے اور کم و بیش ایک ہی طرح کی حالات اور آزمائشیوں سے گزرتی ہے مگر پھر بھی مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مڈل کلاس گھرانوں میں ماؤں کو سب سے زیادہ تکالیف اور بے قدری برداشت کرنا پڑتی ہے۔ اسلئے میں یہ تحریر اپنے معاشرے میں موجود ستر فیصد ماؤں کے نام لکھ رہی ہوں۔ وہ ماں جو گھر کو گھر بنانے کی ہر ایک جتن کرتی ہے مگر اسکے بچوں کا باپ اس سے کھبی خوش نہیں ہوتا۔
مڈل کلاس گھر کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ ماں اپنی اولاد کو ‘باپ ‘ کی عزت اور فرماں برداری سکھاتی ہے مگر باپ اپنی اولاد کو ماں کی عزت کروانے کا حوصلہ یا ظرف نہیں رکھتا اسی وجہ سے اولاد بھول جاتی ہے کہ جس ماں نے باپ کی عزت کرنا سکھایا ہے اس ماں کا بھی عزت اور ادب پر اتنا ہی حق ہے جتنا باپ کا۔ اسلئے جسطرح بعض اوقات والدین اولاد میں تفریق کرتے ہیں اسی طرح کے گھروں میں اولاد بھی والدین کے درمیان تفریق کرتی ہیں۔۔ اکثر گھروں میں اولاد باپ کے سامنے تو ٹھیک رہتی ہیں مگر ماں کے ساتھ انتہائی بدتمیزی اور بداخلاقی سے پیش آتی ہیں۔ ماں اپنی محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اولاد کی کوتاہیوں، نافرمانیوں اور گستاخیوں کو ہر بار معاف کردیتی ہے اور اولاد اس نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے نہیں تھکتی۔ ماں کا مقام تو یہ ہے کہ اسکے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی ہے مگر آج ماں اولاد کے قدموں پر بیٹھی دکھائی دیتی ہے۔
بعض اوقات مجھے بہت ہنسی آتی ہے کہ ایک ساس بہو کے جھگڑے کا تو گھر گھر چڑچا ہو رہا ہوتا ہے مگر اپنے ہی اولاد خاص طور پر بیٹیوں کے ہاتھ بے قدری کا شکار ماں کا کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی شاید اس لئے کہ مائیں بیٹیوں کے رازدار ہوتی ہیں۔ ایک اور چیز جسکا ہم رونا روتے رہتے ہیں کہ ہم مردہ پرست قوم ہیں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں لیکن سنگدلی کی انتہا کہیئے یا بدقسمتی کی کہ ہمیں والدین کی قدر و قیمت کا پتہ بھی انہیں کھونے کے بعد چلتا ہے۔اسکا ایک ثبوت یہ ہے کہ کتابیں انٹرنیٹ سوشل میڈیا والدین سے اظہار محبت پر مبنی درد بھری اشعار، مضامین، نثروں اور نظموں سے بھری پڑی ہیں۔ان تحاریر اور اشعار میں ہمارے لئے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ان اشعار کا 90 فیصد حصہ والدین خاص طور پر ماں سے محرومی کے بعد لکھی گئی ہیں۔ کیا ہمیشہ ماں کی بے لوث محبت، خدمت، محنت اور تھکن کا صلہ اسکے مرنے کے بعد ایک آہ، ایک شعر ایک مضمون یا دو ٹکے کے آنسو ہی ہوں گے؟ کیوں اور کب تک؟ یہ درست ہے کہ اپنی زندگی میں اپنی قدر کروانا بھی والدین کو ہی ہمیں سکھانا پڑتا ہے اور ہمیں سکھایا جانا چاہیے کہ بہترین تربیت اولاد کا حق ہے لیکن اگر محبت کے ہاتھوں مجبور ماؤں نے ہمیں بگاڑا بھی ہے تو ایک لمحے کو سوچئے سمجھئے اور فیصلہ کیجئے وہ تمام اولادیں خاص طور پر بیٹیاں کہ اگر ماں نے خود کو آپکے ہاتھوں کھلونا بنا بھی لیا ہے تو کیا ماں کھلونا ہوتی ہے؟ اگر ماں نے اولاد کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہر دم سب کو خوش رکھنے کے لئے خود کو ‘روبوٹ’ بنا بھی دیا ہے تو کیا ماں کو ” روبوٹ” تسلیم کر لینا چاہیے؟ ضرورت، خواہش، خوشی غم ہر جذبے اور احساس سے بے نیاز ،ہر وقت ہر حکم بجا لانے والی “روبوٹ”۔
میں اس تحریر کے ذریعے بس اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ ماں “روبوٹ ” نہیں ہوتی ۔ماں کٹھ پتلی نہیں ہوتی۔ ماں کھلونا نہیں ہوتی۔ اسلئے میرے عظیم بہن بھائیوں۔ ماں اور باپ کا نام جتنا استعمال کرتے ہو اسکا حق بھی ادا کرنا سیکھو بس۔ ورنہ ماں باپ کے مرنے کے بعد روپیہ پیسہ زیور زمین تو آپکے ہاتھوں میں ہی رہ جائیں گے لیکن سچے دل سے مانگی گئی دعائیں دوبارہ نصیب نہیں ہوں گی اور کائنات کی سب سے مہنگی چیز “بے غرض دعا “ہے جو صرف والدین اپنی اولاد کے لئے کرتے ہیں۔
ماں باپ سے محرومی “دعا” سے محرومی ہے باقی تو دنیا کا کاروبار چلتا ہی رہتا ہے۔ میں اپنی طرف سے اس نئے سال 2023 کو ہر ایک “ماں” کے نام کرتی ہوں اور خاص طور پر ان تمام ماؤں کو سلام پیش کرتی ہوں جو اپنے ہی اولاد کے ہاتھوں ستائی ہوئی ہیں، جو اپنا دکھ سینے میں لئے اس دنیا سے چلی جاتی ہیں اور انکے دل کا حال صرف اللہ جانتا ہے۔اور بے شک اللہ ہی کافی ہے۔
بہت کم ایسی بدبخت اولاد ہوگی جو ماں کے ساتھ اس کے مقام سے گرا ہوا سلوک کرتی ہے۔ جہاں ماں کی بہ ظاہر بے قدری نظر آتی ہے وہ بھی ماں کے بے جا لاد پیار کا نتیجہ ہے۔