Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

مطالبات

داد بیداد

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

حکومت وقت سے کسی چیز کا مطالبہ کرنا بہت اچھی بات ہے، یہ شعور، آگا ہی اور بیداری کی نشانی ہے لیکن ایک شرط بھی ہے شرط یہ ہے کہ مطالبہ مطالبہ جس کے سامنے رکھتا ہے اُس کے اختیارات کو دیکھے جیل خانہ جات کے وزیر کو سپاسنامہ پیش کرتے ہوئے سکول بنانے کا مطالبہ نہ کیا جائے جیل خانہ جات کا وزیر سیاست دان ہو تو فوری طور سکول بنانے کا حکم دیگا

کسی گاوں کا واقعہ ہے زیا دہ پرانا بھی نہیں دو چار برس پہلے کی کہانی ہے ریلوے کا وزیر ایک گاوں میں کسی کی شادی پر گیا شا دی گھر میں موجود لوگوں سے کہا کوئی کام ہو تو بتاو لوگوں نے کہا یہاں کوئی ہسپتال نہیں بہت تکلیف ہوتی ہے وزیر با تد بیر نے فوراً جیب سے سمارٹ فون نکالا کال ملا نے کے بعد ہسپتال کے بارے میں لمبی گفتگو کی اس میں چار ڈاکٹروں کے ساتھ ایکسرے، لیبارٹری وغیرہ کا بھی ذکر کیا اور فون بند کرکے لوگوں کو مبارک باد دی کہ گاوں کے لئے بڑا ہسپتال منظور ہوگیا ہے ترنگ میں آکر وزیرنے پھر پوچھا اور کوئی مسلہ ہو، بتاو ابھی حل کر دیتا ہوں ایک نوجواں نے کہا عالی جاہ ہمارے گاوں میں کسی بھی موبا ئیل کا نیٹ ورک نہیں ہے موبا ئیل نیٹ ورک کی منظوری دیدیں اب وزیر ریلوے کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے

یہ اگست کی بات ہے صاحبزادہ خالد صوبائی سکرٹری تعلیم تھے انہوں نے ایک سیمینار میں اپنا تجربہ بیان کیا کہ مجھے دفتر سنبھا لتے ہوئے 8مہینے ہو گئے ہر روز اوسطاً 40ملاقا تی آتے ہیں 8مہینوں میں ایک لیکچرر آیا اُس کو گو ئیٹے انسٹیٹیوٹ فرنیکفرٹ جرمنی سے کانفرنس میں مقالہ پیش کرنے کا دعوت نامہ ملا تھا، سارا خرچہ کانفرنس انتظامیہ برداشت کر رہی تھی موصوف کو صرف چھٹی اور بیرون ملک سفر کی اجا زت درکار تھی اور اس کی درخواست جون سے اگست تک التوا میں رکھی گئی تھی اس کو چھٹی اور بیرون ملک سفر کی اجا زت والا خط جاری کرکے مجھے بیحد خو شی ہوئی اور میں نے اُس دن دفتر میں مو جود ملاقا تیوں کو بتایا کہ استاد کا اصل کام یہ ہے اور مجھے یہاں اس کام میں سہولت دینے کے لئے بٹھایا گیا ہے میں نے آج تک جو ملا قا تی دیکھے وہ سب اپنی یا اپنے اہل خانہ کی، یا قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کی ایک سٹیشن سے دوسرے سٹیشن تبدیلی کے لئے آتے ہیں اپنا بھی وقت ضاءع کرتے ہیں میرا بھی وقت بر باد کر تے ہیں

ہمارے ایک دوست ڈائر یکٹر تعلیمات ہو اکر تے تھے انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک بڑے سکول میں طلباء نے کلا سوں کا بائیکاٹ کیا بات آگے بڑھی تو بالائی حکام کے ساتھ سکول کا دورہ مقرر ہوا طلباء کو ہال میں جمع کر کے لیڈروں نے ان کے جو مطالبات پیش کئے ان میں سے ایک بھی تعلیم، تدریس اور تر بیت کے بارے میں نہیں تھا، سارے مطالبات ہا سٹل میں پا نی، سکول بس، سکول کنٹین، سکول گراونڈ، سپورٹس ویک، غیرحا ضری کے جرمانوں کی معافی، ماہانہ ٹیسٹ کے خاتمے، طلباء کے لئے سیرسپا ٹے کے پروگرام، سکول میں ثقافتی شو وغیرہ کے بارے میں تھے ہم نے ان کے والدین کو بلا کر یہ مطالبات ان کے سامنے رکھے تو مسئلہ حل ہوگیا

سابق چیف سکرٹری عبد اللہ صاحب کہا کرتے تھے کہ ہم نے کبھی ڈاکٹروں کو علاج معالجہ کی بہتر سہو لتوں کے بارے میں، اسا تذہ کو تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے، انجینئروں کو سرکاری منصوبوں کے اعلیٰ معیار کے لئے ہڑتال کرتے نہیں دیکھا جب بھی احتجاج ہوا تنخواہ، مراعات اور ذاتی مفاد کے لئے ہوا کسی نے بھی اجتماعی مفاد کے لئے احتجاج نہیں کیا اُن کا خیال تھا کہ اس پر قانون سازی ہونی چاہئیے کہ ہر پیشے کے لو گ اپنے پیشے کے تقدس اور عوام کی بھلا ئی کے لئے احتجاج کر سکینگے ذاتی مفادات کے لئے احتجاج کرنے کی اجا زت نہیں ہو گی۔

You might also like

Leave a comment

error: Content is protected!!