Prof Israr Uddin

علاقہ چترال: امکانات اور مواقع

پروفیسر اسرار الدین

سال 1935ء میں ایک جرمن اکیسپڈیشن کی ٹیم چترال آئی تھی جس میں مختلف قسم کے ماہرین شامل تھے۔ ان ماہرین نے مختلف علاقوں کے دورے اور مطالعہ کرکے آخر میں بیرموغلشٹ میں اس وقت کے حکمران ہزہائینس شجاع الملک سے ملاقات کی۔ ان کے سربراہ نے ہزہائینس سے کہا آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کا یہ ملک ہرقسم کی قدرتی خزانوں سے بھرپور ہے اور آپ کوقدرت نے ایسے ملک کے حکمران بننے کا موقع عطا کیا ہے مگر افسوس کی بات کہ آپ نے اپنے بیٹوں کوسائنسی علوم سے آراستہ نہیں کیا تاکہ وہ سائنسی علوم کے ماہر ہوتے آپ کے ملک کے ان چھپے خزانوں کوکام میں لانے کے قابل ہوتے اور آج آپ ایک طاقتور حکمران کے طورپر مشہور ہوتے۔ (راویت حکیم محمد)۔

اس جرمن ماہر کی گفتگوکے کافی عرصہ گزرنے کے بعد بھی چترال اپنے مدفون خزانوں کے استعمال کے حوالے سے وہیں پر ہیں جہاں اُس زمانے میں تھا۔ اگرچہ اس دوران ارضیائی مساحت (سروے) کے نتیجے میں چترال کے اندر مدفون قدرتی خزانوں کے بارے کافی معلومات ضرور بہم یاب ہوئے ہیں پھر بھی ان کا استعمال بھرپور انداز میں اب تک نہیں ہوسکا اور مزید نہ معلوم کتنے سال اس سلسلے میں لگیں گے۔

ان قدرتی کانوں کے علاوہ قابل استعمال زمینات بھی ضلع کے تمام حصوں میں ہزاروں ایکڑوں میں پھیلے ہوئے ہیں ان میں وہScrublandsبھی شامل ہوئے جو آبادیوں کے اوپر پہاڑوں کے ڈھلوانوں پرواقع ہیں۔ اس علاقے کے پانی کے وسائل کو صحیح استعمال کرکے اگران زمینات کو پانی مہیا کیا جائے توتمام علاقہ سبزہ زار اور میوہ زار میں بدلا جاسکتا ہے۔

یہاں کے پانی کے وسائل کو توانائی کیلئے اگر استعمال کیاجائے توہزاروں میگاواٹ بجلی آسانی سے پیدا کی جاسکتی ہے جو نہ صرف اس علاقے کی ضروریات کیلئے پوری ہوں گی بلکہ ملک کے دوسرے حصوں کے لئے بھی سرپلس ہوسکتی ہیں۔

اس علاقے میں بین الاقوامی سیاحت (نیز بین الصوبائی سیاحت) کوفروغ دینے کے لئے بے شمار مواقع ہیں۔ کسی سیاح سے جب پوچھا گیا کہ پاکستان میں جبکہ سوات، کاغان وغیرہ سربز وخوبصورت جگے ہونے کے باوجود سیاح چترال آنا کیوں زیادہ پسند کرتے ہیں تواس کا جواب تھا کہ خوبصورت علاقے توہر جگہ بہت ہیں لیکن چترال میں جو تنوع اور بوقلمونی یہاں کی طبعی حالات اور معاشرتی وثقافتی زندگی میں آپ کوملتی ہے وہ دوسری بہت کم جگہوں میں آپ کونظر آئے گی۔ 

اس طرح اس مختصر علاقے میں ایک سیاح کوگوناگوں مناظرسے لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا ہے۔ نیز تہذیب وثقافت کے مختلف رنگ نظر آتے ہیں (روایت قاضی نظام مرحوم اویونی)۔

چترال پاکستان میں وسطحی ایشیائی ممالک کانزدیک ترین علاقہ ہونے کی بناء پران کے ساتھ زمینی رابطے کوفروغ دینے کے کافی گنجائشیات کے جال کے ذریعے نیز ریلوے لائنوں کی پھیلاؤکی مدد سے ان ممالک کوچترال میں سے پاکستان اور گرم پانی کے سمندورں تک رسائی سے اس ضلعے کی بند گلی کو ایک عظیم گزرگاہ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جس کے ثمرات سے مستقبل کے زمانوں میں یہاں کے لوگ بے پناہ ترقی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔حالیہ زمانوں میں حکومت پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک نام سے بین الاقوامی شاہراہ تعمیر کرنے کا جومعاہدہ ہوا ہے۔ یہ بالآخر چترال کو بھی اس پراجیکٹ میں شامل کرنے پرمنتج ہوگا جس کے نتیجے میں آئیندہ زمانوں میں ایک بین الاقوامی گزرگاہ کے طورپر یہ علاقہ زبردست رول اداکرنے کے قابل ہوگا۔

مستقبل میں یہاں کے جنگلات کو فروغ دینے کی بہت گنجائش ہے۔ ہزاروں ایکڑ زمینات پہاڑوں کی ڈھلوانوں کے ساتھ خالی پڑی ہیں۔جہاں سپرنکل آبپاشی کے ذریعے جنگل کاری کے بہت زیادہ گنجائشیات ہیں۔اس طرح مستقبل میں نہ صرف عمارتی لکڑی بلکہ دیگر جنگلی پیداوارکی ترقی سے بھی آمدن کے بے شمار مواقع ہاتھ آسکتے ہیں۔ 

اونچی وادیوں اور پہاڑوں کے اوپر چراگاہوں کوترقی دینے سے یہ علاقے خوبصورت مرغزاروں میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔نیز یہاں کی جنگلی حیات کوفروغ دینے کیلئے یہ علاقہ بین الاقوامی طورپر شہرت حاصل کرسکتا ہے اور ٹرافی ہنٹنگ کے شوقین بیرونی بین الاقوامی سیاحوں اور شکاریوں کیلے تویہ علاقہ جنت ہے۔

چترال کے معدنی وسائل اور سی پیک کے زیر منصوبہ ترقیات کے حوالے سے مستقبلیت بین ماہرین چترال کے مستقبل کے بارے میں کیا لکھتے ہیں۔ذیل میں ان کا ذکر کیا جاتا ہے۔

معدنی وسائل کسی ملک کی ترقی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔بالخصوص موجودہ زمانے میں معاشی ترقی ان کا کردار ایک لابدی امرہے۔یہ معدنیات جو دھات والے اورغیر دھات والے معدنیات پرمشتمل ہیں۔ سول اور فوجی یادفاعی سیکٹروں سے متعلق کئی صنعتوں میں استعمال ہوتے ہیں۔مثال کے طورپر سول صنعتوں میں بجلی سے چلنے والی موٹر گاڑیاں،میڈیکل اورسرجیکل کے سامان،سمارٹ فون،معلومات عامہ رسل ورسال کی ٹیکنالوجی،کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ،مکانات سے متعلق ضروری اشیاء۔

آمدورفت کے ذرائع سے متعلق وسائل، بینکنگ سیکٹر وغیرہ

چترال کا علاقہ جو دو اضلاع (اپر اور لوئر چترال) پر مشتمل ہے۔ چترال صوبہ خیبرپختونخواہ کا اہم علاقہ ہے۔ اسکا ٹوٹل رقبہ14850مربع کلومیٹر ہے، یہ پہاڑی علاقہ ہے اور یہاں کئی اقسام کے دھات والے معدنیات اور غیردھات والے معدنیات کے بے پناہ ذخیرے موجودہونے کے امکانات روشن ہیں۔ 

یہ معدنیات چترال کے علاقے کے مختلف معدنی بلاکوں میں چھپے ہوئے ہیں۔چترال میں چھ معدنی بلاک کوشناخت کیاگیا ہے۔جوکہ مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔کرینج کمال گول وغیرہ اینٹی منی بلاک 2۔سوررچ بلاک3۔ترچ بلاک4موررچ بلاک5۔پختوری بلاک6۔لاسپور بلاک۔

ان میں سے2سے6تک پانج بلاکوں کو خیبرپختونخواہ صوبے کے بورڈآف انوسٹمنٹ اینڈٹریڈ نے ترقی دینے کے لئے منتخب کیا ہے۔ان بلاکوں میں ٹگسٹن چاندی،سونا،تانبا،کیڈ میام، بیریام خام لوہا،نکل پیلٹینم اور مالبڈنیم جیسے دھات والے معدنیات دریافت ہوئے ہیں۔

چترال کا علاقہ دفاعی لحاظ سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اسکی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔خصوصی طورپر واخان پٹی سے تاجکستان اور دوسرے سنٹرل ایشیائی مسلم ریاستوں کے قریب ترین فاصلے پرواقع ہے۔اسلئے پاکستان کوان علاقوں سے ملانے کے لئے واخان پٹی آسان ترین ذریعہ بنتی ہے۔اس لئے سی پیک پراجیکٹ آنے والے زمانوں میں اس علاقے بلکہ تمام صوبہ خیبر پختونخواہ کی ترقی میں اہم کردار کرسکتا ہے۔کیونکہ سی پیک کے عظیم منصوبوں میں چترال معدنیاتی زون،چترال خصوصی معاشی ترقیاتی زون اور گلگت۔شندور۔ 

چترال چکدرہ شاہراہ کی تعمیر شامل ہیں۔اس شاہراہ کے ذریعے گلگت کوبراہ راست چکدرہ سے ملایا جائے گا اور یہ قراقرم ہائے وے کے متبادل اہم شاہراہ ہوگا۔جونہ صرف گلگت بلتستان کے علاقے کو صوبہ خیبرپختونخواہ سے ڈائرکٹ ملائے گا بلکہ چترال کے لئے بھی دونوں طرف کے علاقوں کے ساتھ آسان تجارتی رابطے کا ذریعہ ہوگا۔

اللہ تعالیٰ نے چترال کے علاقے کا ایک ایسا زبردست محل وقوع عطا فرمایا ہے کہ اپنے چاروں اطراف میں اہم مقامات مثلاًافغانستان،تاجکستان،گلگت بلتستان اوردیرسوات اضلاع (صوبہ خیبرپختونخواہ)کے ساتھ مربوط ہے۔گلگت بلتستان میں بھی مختلف اقسام کے معدنیات موجود ہیں جن میں دھات اور غیر دھات والے دونوں شامل ہیں۔ان کوCPECشاہراہ کے ذریعے براستہ چترال پشاور تک بہ آسانی پہنچایا جاسکیگا۔ان معدنیات میں سونا،پلاٹینم،نکل،بسمتھ،اینٹی منی،کوبالٹ،روبی اور کئی دوسرے معدنیات شامل ہیں۔

چترال کے لئےCPECکے تحت ایک دوسرا منصوبہ اکنامک پراسسنگ زون کا ہے۔ یہ معاشی ترقی کازون ابتدائی طورپر اینٹی منی کے کانوں کی ترقی سے شروع ہوگا تاکہ اسکے بعد دوسرے اہم کانوں کی ترقی کے لئے راستہ ہموار ہوسکے جو چترال میں موجود ہیں۔اسطرح چترال جو مختلف قسم کے معدنیات کی دولت سے مالامال ہے کو نہ صرف دریافت کیا جاسیکیگا بلکہ ان کو بیرونی سرمایہ کاری سے کام میں لایاجاسکیگا۔بتایا جاتا ہے چترال کے علاقے میں 6.5ملین ٹن خام لوہا کے ذخائیر موجود ہیں جوبونی زوم اور دامن نسار (دامیڑ نسار) میں پائے جاتے ہیں۔ غیر دھاتی معدنیات میں سنگ مرمر، گرینائیٹ، جم سٹون اور سوپ سٹو(کھٹیڑ)شامل ہیں۔چترال بلاک میں ایک ہزار ملین ٹن سنگ مرمرکے ذخائیر موجود ہیں۔اور قیمتی پتھروں یعنی جم سٹونز میں بیر یل ٹور مارلین اور ٹوپازگارنٹ شامل ہیں۔

 منصوبے سے چترال کی معاشی ترقی کے بے پناہ امکانات ہیں۔اس سے نہ صرف معدنیات کی صنعت کوترقی ہوسکتی ہے۔بلکہ کئی دوسری صنعتیں ترقی کرسکتی ہیں۔اسلئے معدنیات کی صنعت میں زبردست اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔تاکہ اس طرح ان قیمتی دھاتی مع کو نکالنے میں مدد مل سکے گی۔

ان دھات والے معدنیات کی کان کنی سے چترال ان کوخام حالت میں بھی برآمدکرکے سالانہ اربوں ڈالر کما سکتا ہے۔کیونکہ

 پلاٹینم،نیوڈائی میم نیوبئیم، زرکونیئم اور مولبڈنیم مختلف صنعتوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاًزرعی صنعتوں، سرجیکل اور میڈیکل سے متعلق سامان بنانے کی صنعتوں،ٹیلی کمیونیکیشن،گھروں میں استعمال میں آنے والی اشیاء کی صنعتوں، الیکٹرانکس کے سامان، سینیٹری فٹنگ کے سامان، اٹو موبوئیل صنعت وغیرہ میں استعمال ہوتے ہیں۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک انہی قسم کے معدنیات کے ذریعے مختلف صنعتیں لگاکر ترقی کررہے ہیں۔

چترال کو سی پیک کے اس منصوبے سے ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تمام اشیاء چترال اور خیبرپختونخواہ کے اندرہی پیدا کی جاسکیں گے۔ مثلاًسرجیکل اورمیڈیکل کے سامان، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر، موبائل فون، موٹر گاڑیاں، توانائی کی اشیاء وغیرہ۔ان سے صوبے میں سولر پینل بنانے اور ہواکی توانائی کواستعمال میں لانے کیلئے ٹربائین اور جنریٹر سستے طورپربنانے میں مددمل جائے گی جس سے پاکستان میں بجلی کی کمی کا مسئلہ بھی حل ہوسکے گا۔پاکستان میں معدنیات کے شعبے کوترقی دینے میں کئی مشکلات ہیں۔خاص طورپر صوبہ پختونخواہ کو اس سلسلے میں بے پناہ چیلنجوں کاسامنا ہے۔ 

سی پیک کے منصوبے کے تحت چترال میں معدنیات کی صنعت کوفروغ دینے سے نہ صرف چترال میں بلکہ تمام صوبہ خیبر پختونخواہ میں کان کنی کی صنعت کوترقی دینے میں مددمل سکتی ہے۔ اس طرح چترال میں زبردست صنعتی ترقی کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں اور چترال کاعلاقہ سالانہ اربوں ڈالر کمانے کے مواقع حاصل کر سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *