Javed Hayat Chitral

تریچ پاٸین تہذیب اور اخلاق و شرافت کی اکیڈمی

دھڑکنوں کی زبان

محمد جاوید حیات
چترال کی مثالی تہذیب امن اور باشندوں کی شرافت پوری دنیا میں مشہور ہے۔یہ بات مسلمہ ہے لیکن یہ تہذیب اور شرافت چترال کے بندوبستی علاقوں اور شہروں تک محدود نہیں یہ چترال کے دور افتادہ پسماندہ اور تنگ وادیوں میں بھی شہروں سے زیادہ موجود ہے بلکہ اگر چترال کی اصل تہذیب اور اس کے با شندوں کی شرافت دیکھنی ہو تو کوٸی ان وادیوں میں چلا جاۓ جہان زندگی کی سہولیات نام کی نہیں لیکن یہاں کے باشندے تہذیب و شرافت کے چمپین ملیں گے ۔اپر چترال کے شمال میں موجود تریچ ویلی ایک تنگ اور کھٹن ویلی ہے دونوں طرف فلک بوس پہاڑ درمیان میں بہتی ندی اور ندی کی دونوں طرف چھوٹے چھوٹے گاوں ہیں ۔یہ ویلی دنیا کی مشہور بلند چوٹی تریچ میر کی وجہ سے چترال کی پہچان ہے اور لٹریچر میں تریچ میر کو پریوں کا مسکن قرار دیا گیا ہے ۔تریچ کے مختلف حصے ہیں ویلی کے شروع میں گاوں ویمژد ,لنکوہ ,وریژنو پھوت لولیمی وغیرہ چھوٹے چھوٹے گاوں ملا کر ایک یوسی بنایا گیا یے اور اس کو تریچ پاٸین کا نام دیا گیا ہے ۔۔ان سب گاوں میں لولیمی ندی کے ساتھ ایک جنت نظیر گاوں جو گرمیوں میں جنت کا نظارہ پیش کرتا یے ویمژد گرمیوں کی جنت ہے اس گاوں میں عظیم لوگ گزرے ہیں جوزندگی کے ہر میدانوں کے شاہسوار ہیں ان پر الگ ایک مضمون لکھا جاسکتا ہے ۔ہمیں الیکشن کی ڈیوٹی کے سلسلے میں وہاں جانے کا اتفاق ہوا ۔گاوں میں ابھی بہار کی أمد تھی خوبانی پھول لاۓ تھے لوگ شجر کاری کھیت کھلیانوں فصل بہار کی بواٸی اور سبزی کاشت کرنے میں مصروف تھے پھلدار پودوں کی قلمکاری کر رہے تھے چمن سبزہ زاروں کو صاف کر رہے تھے سرسبزی انکھوں کو طراوت بخش رہے تھی ۔۔ہم دو دن پہلے سٹیشن پہنچ گۓ یہ مڈل سکول تریچ پاٸین تھا ۔۔شریف اللہ سکول میں موجود تھا سکول کا غیر مقامی استاد عبد الاحد بھی موجود تھے ۔ہم پہنچے ہی تھے کہ گاوں کے ایک سوشل ورکر اور معتبر شخصیت غازی خان دوڑ کے پہنچے اس کے بتیجھے شیرنبی کے ہاتھ میں چاۓ کا فلاسک تھا غازی اپنے زمانے کے مشہور فٹبالر اور پیشے کے لحاظ سے ڈرایور ہیں انھوں نے اپنے علاقےکی ایسی خدمت کی کہ لوگ معترف ہٕیں ان کا بتھیجا خواجہ سید احمد بجٹ أفیسر پشاور سیکٹریٹ کا ابھی گریٹ 18 میں ترقی ہوٸی موصوف ایک ادبی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کے دھنی ہیں سارا چترال ان کی خدمت کا معترف ہے ۔غازی نے پورے عملے کے خوردونوش کا زمہ لیا اور واقعی خدمت کی ایسی مثال قائم کی جو ہم بھول نہیں سکے ۔۔کمال کی بات یوں تھی کہ ان دو دنوں میں ہم نے اس علاقے میں جو شرافت دیکھی زندگی میں کبھی ایسا تجربہ نہیں ہوا ۔سیاسی کارکن آتے سٕاست چھوڑ تمہاری خیر خبر لیتے چاۓ کی بوتلیں آتیں ۔اپنے ووٹروں کو سنبھالتے امن و آمان کا خود خیال رکھتے کھانے پینے کی دعوت دیتے ۔ہنس کے ملتے اور مل کے اپنا گرویدہ بنا دیتے ۔تمہاری عزت کی خاطر اپنی سیاست اور پارٹی تک قربان کرنے کو تیار رہتے ۔۔ہم نے کسی خاتون کو بغیر قبایا برقع اور موٹی چادر کی گھونگھٹ نکالتی بغیر نہٕیں دیکھا ۔ان کی طرف سے معمولی سا شور نہیں سنا ان کو آپس میں اُونچی آواز میں بات کرتے نہیں سنا ۔سٹاف پر اعتماد اتنا کہ ایجنٹ تک تجھ سے جھک کے ملے ووٹنگ پر مکمل اعتماد ۔انتظامات پراعتماد ۔ووٹوں کی گنتی پراعتماد ۔۔میں نے اتنے دریا دل اور محترم لوگوں سے کبھی نہٕیں ملا ۔ان کے الفاظ سے محبت ٹپکتی تھی ان کے احساسات پاکیزہ تھےان کے چہروں سے خلوص عیان تھا ۔ وہ احترام کرتے تھکتے نہیں تھے۔ انھوں نے چترالی تہذیب کا ایسا مظاہرہ کیا کہ دیکھنے والا عش کراُٹھے ۔۔یاں پر سوال چترال کی چترالیت کا ہے چترال میں ہر کہٕیں اس بے مثال شرافت اور تہذیب کا مظاہرہ ہوا کرتا تھا مگراب ایسا نہیں براۓ نام تعلیم اورجدیدیت نے منظر ہی بدل دیا ہے۔چترال کی مثالی تہذیب کے اثرات ایسے پسماندہ دیہات میں باقی ہیں لوگ جدیدیت کے نام پہ کیا کیا نقلیں اُتارتے ہیں ۔لباس نۓ, انداز نیا, طور طریقے نۓ ۔۔افسوس ہوتا ہے کہ چترال کی اصلیت اور مثالیت معدوم ہوتی جا رہی ہے اب ہم چترالی تہذیب کی کیا مثال پیش کریں ہاں یا تو بندے کو اٹھا کر ایسے دیہات میں لایا جاۓ ۔۔تریچ پاٸین میں خاص کر خواتین کی تہذیب ,لباس پوشاک اور نشست و برخواست پررشک أیا ۔۔اسلام کے ابتداٸی دور کی یاد ستاٸی ۔مجھے ان لوگوں نے اپنی عقیدت اور محبت کا مقروض بنا دیا ۔۔تریچ پاٸین کے عظیم لوگوں سے مل کر یقین ہوتا ہے کہ انسانیت کے پیپنے میں جعرافیہ کبھی روکاوٹ نہیں بنا۔کوٸی آۓ اور تہذیب و شرافت کی اس اکیڈیمی سے فیض یاب ہو جاۓ ۔۔اللہ ان لوگوں کو سرسبز و شاداب رکھے۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *