نفسیاتی جنگ کے ایندھن
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
وزیراعظم عمران خا ن نے کہا ہے کہ ہم پا کستان میں تشدد سے پاک معا شرہ قائم کرنا چاہتے ہیں اور دنیا میں ملک کے پرامن ساکھ کو اجا گر کرکے بیرونی سرما یہ کاری اور سیاحت کو فروغ دینا ہمارا مشن ہے وزیراعظم کے پاس سوشل میڈیا پر پب جی کی طرح پُر تشدد گیم اور ٹیلی وژن چینلوں پر تشدد کی پر چار کر نے والے ڈرامے دیکھنے کی فرصت نہیں ہوگی وزارت اطلاعا ت کی یہ ذمہ داری ہے کہ میڈیا پر آنے والے پروگراموں کے بارے میں خلا صے بنا کر وزیراعظم کی خد مت میں پیش کر ے تا کہ وزیراعظم کے علم میں یہ بات آئے کہ ہماری نئی نسل کو کس طرح نفسیاتی جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا جا تا ہے
اس جنگ کے سب سے آسان ایندھن ہمارے بچے بنتے ہیں ایک ابنار مل نسل تیا رہورہی ہے اور یہ خطرناک رویہ ہے جوقوم کے مستقبل کے لئے زہر قاتل ہے سوشل میڈیا کی پرائیویسی بھی ہے ہر فرد اکیلے میں دیکھ لیتا ہے لیکن ٹیلی وژن کی کوئی پرائیویسی نہیں ہر ٹی وی چینل دعویٰ کرتا ہے کہ یہ فیملی چینل ہے آپ گھر کے افراد کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں لطف اندوز ہو سکتے ہیں مگر ترکی زبان سے اردو میں منتقل کئے گئے ڈرامے آپ گھر کے افراد کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے ان ڈرا موں میں محبت کا مشرقی معیار نہیں، شراب بھی کھلم کھلا پینے کا کلچر ہے سب سے زیا دہ خطرناک بات یہ ہے کہ لو گوں کو قتل کر نے کی باقاعدہ ترغیب دی جا تی ہے لوگوں کو بے دردی کے ساتھ ذبح کیا جا تا ہے عورتوں کو اغوا کرکے کئی کئی دنوں تک حبس بے جا میں رکھا جاتا ہے بچوں کو پکڑ کر ان کے گلے پر چھری پھیر دی جا تی ہے
اس طرح کے پر تشدد منا ظر دیکھنے کے بعد دیہات اور شہروں میں چار منا ظر عموما ً سا منے آتے ہیں سکول یا مدرسہ سے آنے والے بچے اپنے ساتھی کو جنگل میں لے جاکر رسیو ں کی مدد سے درخت کیساتھ با ندھ دیتے ہیں شام کو بچہ گھر نہ آئے تو والدین کو فکر دامن گیر ہو تی ہے ادھر ادھر پوچھ کر کسی بچے کی مدد سے مذکورہ درخت کا پتہ لگا تے ہیں اور بھیڑیے کی خوراک بننے سے پہلے اپنے بچے کو کھول کر گھر لے آتے ہیں
دوسرا منظر اس سے بھی بھیانک ہے سکول سے گھر آتے ہوئے چھٹی جماعت کا طالب علم زخمی ہوکر گر پڑا ساتھی اس کو چھوڑ کر بھاگ گئے را ہگیروں نے ہسپتال پہنچایا اس کے گلے پر گہرے زخم کے نشا ن تھے پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ تور گوت مجھے ذبخ کر نے والا تھا موٹر کو آتے دیکھ کر چھوڑ دیا اور بھاگ گیا پولیس نے تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ لڑ کوں نے لکڑی کے خنجر اور چھُرے بنا ئے ہوئے ہیں ان کو اپنے بستے میں رکھ کر سکول لے جا تے ہیں واپسی پر اس طرح کے کھیل محض دل لگی کے لئے کھیلتے ہیں
پولیس نے تورگوت نا می لڑ کے اور ان کے ساتھیوں سے تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ لکڑی کے خنجر سے ساتھی کو ذبخ کرنا نہیں چاہتے تھے ان کو یقین تھا کہ ساتھی ذبخ نہیں ہوگا ویڈیو بنے گی یہ بات ان کے وہم و گما ن میں نہیں تھا کہ اس کھیل پر انہیں حوالات کی ہوا کھا نی پڑے گی ، تیسرا منظر پہلے کے دو منا ظر سے زیا دہ دلخراش ہے گھر کی دہلیز پر کھیلنے والے 5سالہ بچے کو اس کے ساتھیوں نے درخت سے لٹکا یا ہوا ہے لڑکے کی چیخ وپکار سن کرارد گرد گھروں سے خواتین با ہر نکلتی ہیں لڑکے کی جا ن بچ جا تی ہے دوسرے بچے بھا گ جا تے ہیں بچوں سے پوچھ کچھ ہو تی ہے تو کہتے ہیں ’’غدار کا یہ انجام ہو تا ہے‘‘ یہ 4سال سے لیکر 6سال تک کی عمر کے بچے ہیں جو ابھی سکول نہیں گئے، مدرسہ بھی نہیں گئے انہوں نے ترکی کے ڈرامے سے غدار کا انجا م سیکھ لیا ہے
چوتھا منظر بہت عام ہے ہر گھر میں آپ کو لکڑی کا بنا ہوا خنجرملتا ہے، چھری ملتی ہے، کلہاڑی ملتی ہے تلوار ملتی ہے تیر کمان ملتے ہیں جنگ کے یہ اسباب بچوں نے ڈرامے سے اخذ کر کے اپنی روز مرہ زندگی کا حصہ بنا لیا ہے، اب نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ بازار میں بھی کھلونوں کی دکانو ں پر یہ سامان کھلے عام فروخت ہو رہے ہیں
یہ زما نہ نفسیاتی جنگ کا ہے اس جنگ میں ہم نے اپنے نئی نسل کو دانستہ طور پر دھکیل دیا ہے اگر آج حکومت کے کسی نیک دل حا کم کا ضمیر جا گ گیا اور تر کی کے ڈرامے بند کئے گئے تب بھی مو جو دہ نسل ارطغرل، اورال، بیسیلوس اور علیار کے گن گاتی رہے گی کوئی تجویز اور مشورہ دینے کے لئے سامنے سننے والا کوئی نہیں اس لئے خود کلا می کی صورت میں اس قدر کہنے کی اجا زت ہو نی چا ہئیے کہ نئی نسل کے مستقبل کی خا طر تر کی کے ڈراموں پر مکمل پا بندی لگا ئی جا ئے تا کہ ملک میں کا لعدم تنظیموں کی نئی فصل پھر سے سر نہ اٹھا لے اور ہمارے بچے ہماری آنکھوں کے سامنے ایک بے معنی اور بے مقصد نفسیا تی جنگ کے ایندھن نہ بنیں۔