Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

بی جان ہوٹل آفواوْں کی ذد میں کیوں؟

محمد آمین
دور حاضر میں ہوٹل کی صنعت کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور ایک سروے کے مطابق 2018میں اسی صنعت کا گلوبل حصہ 8.8ٹریلین یوایس ڈالر تھا اوراسی سے اس صنعت کی بین الاقوامی اہمیت کا اندازا لگایا جاسکتا ہے ۔ ہوٹل انڈسٹری سے مقامی اکنامی کے لیے براہ راست امدنی پیدا ہو سکتی ہے، سیاحون کی امد میں اضافہ ہوتا ہے اور انفرسٹرکچر خصوصا سڑکوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کی بہتری میں سیاح مثبت کردار ادا کرتے ہیں ۔ خوش ائیند بات یہ ہے کہ پاکستان میں یہ صنعت ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور ملکی جی ڈی پی میں اس کا حصہ تین فیصد ہے۔

چترال اپنی خدوخالاور قدراتی حسن کی بناء ملکی اور بیرونی سیاحوں کے لیے جنت سے کم نہیں ،بات یہاں تک نہیں رکتی بلکہ علاقے میں امن و امان اور مقامی لوگوں کی خاص مہمان نوازی بھی سیاحوں کے لیے خصوصی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں ملک کے مختلف جہگوں سے سیاح اس جنت نظیر علاقے کی طرف رخ کرتے ہیں۔ ہوٹل انڈسٹری کے علاوہ سیاحت کی فروغ نا ممکن ہے لہذا یہ امر حقیقت ہے کہ اس صنعت کو اعلی پیمانے تک ترقی دینے کے لیے بہتر سے بہتر ہوٹل کی تعمیر نہایت ضروری ہے اور چترال میں بی جان ہوٹل جو کہ ایک اعلی طرز کا فائیو اسٹار ہوٹل ہے کی تعمیر اس سلسلے میں ایک خوش ائیند اور حوصلہ افزاء قدم ہے۔

لیکن جب سے بی جان ہوٹل کی تعمیر کا عمل شروع ہوا ہے تب سے مختلف قسم کے رد عمل سامنے ارہے ہیں اور ہر کوئی اپنی رد عمل کو حق بجانب بنانے کی کوشش کرتے ہیں کوئی اسے چترال کی ترقی میں سنگ میل قرار دیتے ہیں  اور کئی اسے ناپسندگی اور حقارت سے دیکھتے ہیں۔ اج سے چند ہفتے قبل اسلام اباد میں چترال سے تعلق رکھنے والے ایک کاروباری شخصیت سے ملاقات ہوئی اور باتوں باتوں میں بی جان ہوٹل کا تذکرہ ہوا اور اس دوست نے بی جان ہوٹل کو چترال کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دیا کیونکہ بقول ان کے اگر 5 اسٹار ہوٹل کسی علاقے میں تعمیر ہوا تو ایسے علاقے کو ترقی یافتہ علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے اور چترال جیسے پسماندہ علاقہ کے لیئے یہ غلط تاثر دے گا اور ریاستی اور نجی اداروں کی توجہ کم ہونگے بات یہاں تک نہیں روکتی سوشل میڈیا پر بھی بہت سے لوگ ایسی تاثرات کا اظہار کرتے نظر ارہے ہیں۔

اس کے علاوہ کچھ ایسے لوگ بھی ملے ہیں جن کا تشویش یہ ہے کہ فائیو اسٹار ہوٹل میں غیر اخلاقی سرگرمیوں کے امکانات دیکھنے کو ملیں گے جو چترال جیسے علاقے کے رسم و رواج اوراخلاقی اقدار کے خلاف ہیں لہذا اس ہوٹل سے ہمارے اخلاقی اقدار کو بے تحاشہ نقصان پہنچنے گا۔ ان دونوں گروپ کے علاوہ شائد کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کہ اس اعلی نوعیت کے ہوٹل سے ان کے ذاتی مفادات کو نقصان پہنچنے کے قوی امکانات ہیں اور یہ انسانی فطرت کا اہم جز ہے۔

اگر ہم اوپر دیئے گئے تحفظات کا بغور جائزہ لیں تو ان میں کوئی حقیقت دیکھنے کو سچ مچ نہیں ملتے ہیں اور بعض محض پروپگنڈے کے اور کچھ نہیں۔ جہاں تک اس سے چترال کی ترقی میں رکاوٹ کا تعلق ہے اس کی کوئی عقلی دلیل نہیں بنتی ہے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ موجودہ حکومت کی لسٹ میں سیاحت کی صنعت کو ترقی دینا اولین ترجیحات میں سے ہے اور چترال اس لحاظ سے ایک فینگر پرنٹ ہے کیونکہ چترال میں سیاحت کے حوالے بہت سارے مواقع اور صلاحتین موجود ہیں جن کی مد میں سیاحت کو بڑے پیمانے پر فروغ دی جاسکتی ہے اور جتنے زیادہ سیاح علاقے کی طرح رخ کریں گے اتنی زیادہ مقامی لوگوں کی امدنی میں اضافہ ہو سکتی ہے، غربت میں کمی اسکتی ہے اور ثقافتوں کا اپس میں تبادلہ ہو سکتا ہے اور نالج شئیر ہوسکتی ہے اور مختصرا چترال ٹورزم کے حوالے سے ورلڈ میپ پر اسکتی ہے۔ اور اس مد میں سیاحت اور ہوٹل انڈسٹریز ایک دوسرے کے لازم و ملزم ہیں کیونکہ زیادہ اور اعلی میعار کے ہوٹل سیاحون کی ذوق، سکون و ارائیش کے لیے مدد گار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ تعمیر کے عمل سے لیکر اپریشن تک نہ صرف مقامی ابادی کو روزگار کے مواقع فرہم کرسکتی ہے بلکہ نئے اسکلز بھی ٹرانسفر کرنے میں مدد دیتی ہے۔ لہذا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ٹورزم کو پروموٹ کرنے میں بی جان ہوٹل کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔

جہاں تک اس ہوٹل کی قیام سے اخلاقی اقدار پر حملے کا تعلق ہے دنیا میں اس وقت اٹھاون کے لگ بھگ اسلامی ممالک ہیں جہاں اس قسم کی سہولتیں موجود ہیں اور یہاں دو اسلامی ممالک کی مثالین دی جا سکتی ہے میرا مطلب سعودی عرب اور ایران ہیں اور ان دو اسلامی ریاستوں میں جدید طرز کے فائیو اسٹار ہوٹلز بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن چترال میں ان کی وجود سے اسلامی اقدار کی پائیمالی سمجھ سے بالاتر ہے۔ غربت ایک ایسی لعنت ہے جس سے ہر قسم کی بے حیائی پھیلنے کے قوی امکانات موجود ہیں ۔ یہ ساری دقیانوسی مفروضے ہیں۔

لیکن حالات و واقعات جو بھی ہو یہ پروجیکٹ چترال کی تاریخ میں ایک بڑی اہمیت کا حامل ہوگا اور وہ میں چترال کے ان اثاثوں کا قدر کرنا چاہئے۔

انور آمان ان لوگوں میں سے ہیں جو اتنی بڑی رقم کی سرمایاکاری کرکے اپنی مٹی کا قرض چھکا رہاہے تاکہ علاقے میں روزگار پیدا ہو سیاحت کو فروغ ملے اگر یہی سرمایہ کاری چترال کے بجائے اسلام آباد یا کسی دوسری بڑی شہر میں کرسکتا تو اس کے ریٹرنس بھی اتنی زیادہ ہوتی۔ یہ لوگ ہمارے اصل ہیروز ہیں اور ھمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ اس ہوٹل کی راہ میں اور بھی راکاوٹیں اسکتے ہیں جو سازشوں کے بل بوتے پر پرواں چڑیں گے، لیکن یہ میگا پروجیکٹ چترال کی ترقی میں اہم کردار کرے گا علاوہ ہوٹل انڈسٹری کے میدان میں ایک صحت مند مقابلہ دیکھنے کو ملے گا جس کا فائدہ چترالی عوام کو ملے گا۔

یہاں میں اس چیز کا بھی تذکرہ لازمی سمجھوں گا کہ اللہ تعا لی نے اس چترالی بیٹے کو دولت سے نوازا ہے اور اس سے غریبوں کی فلاح کے لیے بھی استعمال کرنا چاہئے کیونکہ چترال میں ایسے علاقے بھی موجود ہیں جہان ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں لیکن مالی وسائل کی کمی سے یہ ٹیلنٹ ضائع ہوتی ھے میرا اشارہ تعلیم کی طرف ہے۔ اگرچترال کا یہ بیٹا اپنے مرحومہ ماں کے نام پر بی جان فاونڈیشن بنائے تو اسے مرحومہ کی روح کو سکوں ملے گا اور فلاحی کاموں خصوصا تعلیم اورصحت کے سیکٹر میں ذہین اور حقدر لوگوں کی مدد کی جائے گی کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے اور ہم اپنی قابل استعداد والوں سے ان چیزوں کی توقع کرسکتے ہیں۔

You might also like
2 Comments
  1. Liaquat Ali says

    Five Star Hotel will attract national; international tourists; this will give sure rise to business; employment in Chitral. Roads and hotels are one of the two major sources for promotion of tourism that surely boost economy of the region. People of Chitral are no doubt fortunate to have person making such huge investment in Chitral.

    Liaquat Chitral

  2. Ehsanullah says

    The legal lacunae should be sorted out and work resumed on the hotel at the earliest. It is for the good of Chitral. As far as conspiracy theories are concerned, they are all bullshit and typical in Chitral.

Leave a comment

error: Content is protected!!