Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

کون کس کا ادمی ہے یہ جاننا لازمی ہے

تحریر ناہیدہ سیف ایڈوکیٹ 
اج کل شہزاد رائے کا یہ نیا گانا کافی ہٹ جا رہا ہے “کون کس کا ادمی ہے”۔ اس کا پیغام بہت ہی خوبصورت اور مثبت ہے شہزاد رائے نے اس گانے کی ریلیز کا وقت بھی حالات کی مناسبت سے رکھا ہے جب سینٹ الیکشن کے دوران  پچھلے سینٹ الیکشن میں ممبران کے کالے کرتوت نہ صرف سامنے ارہے ہیں بلکہ وڈیو کی صورت میں نوٹ گنتے ہوئے حسرت سے چمکتی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے ضمیر کو بھیجتے ہوئے دھوکے بازی اور بے ایمانی کے آخری حدود کو چھوتے ہوئے نظر آرہے ہیں  اللہ تعالی ایسے عہدے ایسی دولت سے محفوظ رکھیں جس کی چمک سے انسان اس کی دی ہوئی عزت کی قدر نہ کر پائے ہضم نہ کر پائے اور جو انسان کو کمینہ اور کم ظرف بنائے ( امیں)
بڑے بزرگوں کا قول ہے کہ عزت کو سنبھالنا اور ہضم کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی یہ ایمانداری اور اخلاق کی وہ سیڑھی ہے جس پر مظبوط کردار کے لوگ چڑھ سکتے ہیں اور بد کردار اور سطحی لوگ دوسری سیڑھی پہ ہی گر جاتے ہیں  اور ذلالت رسوائی کا راستہ اپناتے ہیں۔ 
شرم ناک  اور جہالت کی انتہا دیکھے کہ ان حضرات نے اپنے ضمیر کو تو بھیجا  اپنی پارٹی کو تو دھوکہ دیا ہی لیکن ان ویڈیوز میں وہ لوگ بھی صاف نظر ارہے ہیں جو قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر قسم کھا رہے تھے  یعنی کہ کلام خدا کے ساتھ بھی اتنی بےباکی اور ڈھٹائی کہ شیطان بھی پناہ مانگے۔
 ہم جیسے گناہگار لوگ سچ بات پر بھی قران اٹھانے کی جسارت نہیں کر سکتے اور ہزار بار سوچیں گے ان لوگوں نے ضمیر تو بھیجا لیکن مذہب کو بھی بھیجنے کی ناپاک  جسارت اور ناسمجھ لوگوں کو مذہبی طریقے سے بلیک میل کرنے کی  ناکام کوشش کی۔ حیرت ہوتی  ہیں ان کی حرکتیں دیکھ کر۔ 
 اتنی بھی عقل نہیں کہ قرآن کی شان  ہے کہ  پڑھتا کافر بھی ہے لیکن اسکا احترام مسلمان پر لازم اور ایمان کا جز ہے اپنے فضول کاموں میں مقدس چیزوں کو مت لاءو خود کو اتنا تکبر اور گھمنڈ  میں  مت رکھو  اور اتنا کم ظرف مت بنؤ کہ ہر حد کو پار کر سکو۔  شیخ سعدی کا فرمان ہے کہ کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی دلیل  کافی ہے  کہ وہ قسم کھائے۔ 
ویسے تو ہر سینٹ الیکشن میں یہ بازگشت سنائی دیتی تھی کہ ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے لیکن ثبوت کے ساتھ ارشد شریف کے ان ہوشربا وڈیوز کو منظر عام پر انے کے بعد کوئی شک وشبہ باقی نہیں۔رہا کہ سینٹ الیکشن نہیں بلکہ اس کو بےضمیر انسانوں کو خریدنے کا  منڈی کہنا زیادہ  مناسب ہو گا جہاں سستے لوگ خود کی باءو لگاتے ہیں اور مہنگے داموں بھیڑ بکریوں کی طرح بک جاتے ہیں ۔
ظاہر ہے کسی مہنگے اور باکردار بندے کی طرف اس طرح کی سطحی اور اخلاقی پستی کی  بات لے کر جاتے ہوئے  بھی ٹائوٹ ہزار دفعہ سوچے گا۔
اب نہ صرف یہ لوگ ایکسپوز ہو گئے بلکہ وہ سیاسی نام نہاد جمہوریت پسند بھی بے نقاب ہو گئے ہیں جو ان کاموں کو نہ صرف سپورٹ کرتے ہیں بلکہ  ایسے  کرپٹ لوگوں کو پھول پہنا کر ان کو اپنی پارٹیوں میں شمولیت کی دعوتیں بھی دیتے ہیں ۔
اور  بابنگ دہل سینہ تان کر اس کا کریڈٹ بھی  لیتے ہیں جن کو پتہ ہے  کہ اب ان کی دال عوام کے چولہے پر نہیں گلنی ۔ یہ ریجیکٹڈ  پارٹیز  ہیں جن کی سوچ انتہائی سطحی نوعیت کی ہے یعنی کسی طرح بھی اقتدار کا حصول۔
  چاہے وہ سینٹ الیکشن ہو یا بلوچستان اسمبلی کی تحلیل یہ کرپٹ ٹولہ  عوام کی اور اس سسٹم کی تو ہین  کر کے جلسوں میں تکبر سے کہتا ہوا سنائی دےگا ہم نےحکومت اکھاڑ پھینکا۔ 
تو یہ وہ مائنڈ سیٹ ہے جس کو پتہ ہے کہ وہ کبھی بھی عوامی مینڈیٹ سے نہیں اسکتا تو اس طرح اوچے ہتھکنڈے استعمال کرینگے اور ان کے نزدیک یہ سیاست ہے اور یہی جمہوریت۔ بندے کی سوچ اور اس کے پاس جتنی شعور کی آگاہی  ہو گی اس کی حرکت اور کام اسی لیول کے ہی ہونگے۔
سینٹ الیکشن میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے حکومت نے شو اف ہینڈ یعنی ہاتھ کھڑا کر کے ووٹنگ کا جو طریقہ کار اپنانے کی کوشش میں ہے۔ اگرچہ اوپن بیلٹ ووٹنگ کے  اور بھی طریقے ہیں لیکن یہ بھی اس کا حصہ ہے۔ کچھ سال پہلے سینٹ الیکشن کی شفافیت  کو یقینی بنانے کے لیے انڈیا نے بھی یہی طریقہ کار اپنایا ہے۔
 اب جو بھی اس کے خلاف ہیں وہ خود ہی عوام کے سامنے ایکسپوز ہو رہےہیں  کہ وہ اس ملک سے نہ کرپشن نہ ہی سسٹم کی بہتری کے لیے سنجیدہ ہے۔
 کیونکہ ان کی سیاست صرف ان کے ذاتی مفادات  کے گرد گھومتی ہے جس نے سیاست نام کو الودگی اور غلاظت سے  بھر دیا ہے۔
ان لوگوں کی  نیت کو سمجھنے کےلیے کوئی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ۔ قدرت ان کو بار بار بے نقاب کر رہا ہے۔
ان کی اب یہی کوشش ہے کہ وہ ممبرز خریدے ان کے نماءندگان ٹی وی  پر آکر انتہائی بھونگا دلیل دیتے ہیں کہ عمران خان کے ممبرز حکومت سے نالاں ہیں اور وہ اپنا ووٹ بھیجنا چاہتے ہیں  لہذا مارکیٹ میں جو چیز آئے گی ہم خریدیں گے۔
اگر تو وہ عمران خان  کی پالیسیز سے نالاں ہیں  پھر  تو اور بھی اچھی بات ہے بھئ   کہ  اپ لوگ پیسہ پھینک تماشہ دیکھ والا ڈرامہ مت رچاءو  وہ  پیسہ لیے بغیر ہی اپ کو ووٹ کرینگے ڈر کس بات کا۔
 یہ تو حکومت کی سبکی ہوگی اور ایسے باضمیر غیرت مند با اصول لوگوں کو تو اس ملک کی ضرورت ہے ۔ اگر فروخت ہی ہونا ہے تو پھر ان کو نہ ہی ملک کو نہ ہی عوام کو ان کی ضرورت ہے  ۔ ایسے لوگوں کو سپورٹ ان کی حوصلہ افزائی وہی کر سکتے ہیں جو ان کے جیسے ہیں ۔جنہوں نے ان سے مراعات لی ہوئی ہیں یعنی بینفشری ۔
 کسی کو ٹکٹ چاہئے کسی کو ٹھیکہ چائیے کسی کا تبادلہ گھر کے پاس بغیر ڈیوٹی کے چاہئے۔  
 ایک عزت دار باوقار بندہ جو اپنا کماتا ہے اپنا کھاتا ہے اس کو قطعی ضرورت نہئں ہے کہ وہ ان کے گناہ میں خود کو شامل کر کہ الودہ  کر لے۔ 
کسی کو عزت دینے کا بھی اپنا معیار یے ایک  سینسبل اور ایماندار بندہ کسی کی بے ایمانی اور دھوکہ بازی پر اس کو سپورٹ اور پروموٹ تو نہیں کر سکتا۔۔ 
ایک دھوکہ باز ایک دھوکہ باز کو ہی سپورٹ کرے گا اور ایک بے ایمان ایک بے ایمان کو ہی سپورٹ کرے گا اور ایک ایماندار بندہ ایماندار کو ہی سپورٹ کرے گا یہ تو سوچ کی طرح روشن بات ہے۔  اور جس نے بھی زندگی کا تھوڑا بہت تجربہ دیکھا ہے اس کو پتہ ہے شاہین کوے  کی محفل میں کبھی نہیں بیٹھ سکتا کوے کو گدھ کھانے کی عادت ہوتی ہے جبکہ شاہین ہمیشہ تازہ گوشت ہی کھاتا ہے۔
حکومت نے اوپن بیلٹ کے لیے معزز سپریم کورٹ سے بھی مشورہ مانگا کہ وہ بہتر طور پر آئینی طریقے سے اس کی تشریح کر سکتی ہے تاہم ساتھ ہی صدارتی آرڈیننس بھی جاری کر دیا ہے ۔  
جو لوگ یہ کہتے ہیں اگر یہ کام ہو رہا ہے تو وہ بھی ہو جائے یہ بھی ہو جائے ان کی اس بات  میں کوئی وزن نہں ہے اور اس میں بددیانتی کے علاوہ کوئی خاص وجہ سمجھ نہیں اتی  سسٹم میں بہتری کے لیے اقدامات کرنے پڑتے ہیں اور ہمارے جیسے ملک جہاں مافیاز کا راج یو وہاں  ان سے قبضہ چھڑانا کوئی اتنا اسان  کام نہئں وقت لگتا ہے۔
ان کے ٹائوٹ  بڑے بڑے میڈیا ہائوسز  سے لے کر  چھوٹے چھوٹے گلی کوچوں میں بھیٹے ہوئے ہیں۔
 ایک کام اگر اچھا ہو رہا ہے تو اچھی بات ہے ۔اس کو سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
 اپوزیشن کو مشورہ ہے کہ کبھی سسٹم کی بہتری کے لیے اپ بھی کوئی بل لایا کرے جہاں اپ کے مفادات کے تحفظ والی جمہوریت اور موروثیت کے پروموروشن کے علاوہ بھی ملک کی کوئی بہتری نظر آئے ۔عوام کی بہتری کی کوئی بات نظر ائے۔
 اس آرڈیننس  پر پی ڈی ایم جو انگلی اٹھا رہی ہے سوال ان سے یہ ہونا چائیے عمران خان نے تو اپنے ممبرز جو خود کو عمران خان اور پرویز  خٹک جیسے زیرک سیادتدان سے زیادہ ہو شیار سمجھ رہے تھے ان کو پکڑ کر باہر کیا اپ کے بتائو جو اپ  کے سینٹ چیئرمین کے ووٹنگ میں چودہ ووٹ کسی نہ کسی طرح غائب تھے ان کا کتنا محاصبہ کیا۔
یا ابھی بھی ان عہدوں پر بھیٹے ہیں یہ سب کچھ قوم دیکھ رہی ہے لوگ بے وقوف نہئں ہیں۔ اپ  کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اپ کہاں کھڑے ہیں۔
 وزیر اعظم  صاحب نے وڈیوز منظر عام پر انے کے بعد ان ممبران کے خلاف کارروائی کے لیے ایک کمیٹی بھی بنا دی ہے ۔جو کہ سیاست سے غلاظت دور کرنے کی جانب اچھا قدم ہے اور جو سینٹر بنے ہیں خیبر پختونخواہ  سے جادو کے ذریعے چھ سیٹ پر دو سینٹرز انکا بھی مواخذہ بہت ضروری ہے۔
 شیر پائو گروپ کے دس ممبرز تھے وہ ایک سینٹر بھی نہیں لا سکے تو یہ جو جادو کی چھڑی استعمال ہوئی ہے اس کو بھی عوام کے سامنے لانے کی ضرورت ہے ان چند  کرپٹ ٹولوں  کی  وجہ سے معاشرہ بربادی کی طرف گامزن ہو رہا ہے   کہ  ایسے شرمناک ہتھکنڈے استعمال کر کے ایوان بالا تک پہنچنا اور پھر کرپشن  کے خلاف بھاشن دینا یہ اس ملک اور اس ملک کے عوام کی سراسر توہین ہے۔
عمران خان صاحب کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے کرپشن کے خلاف لوگوں کو کھڑا کیا ان کو ووٹ بھی اسی بیس پر ملا ہے آج اگر وہ اپنے منشور پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کر رہا ہے تو اس میں برا کیا ہے ۔
یہ بات سچ ہے کہ خان صاحب  کو کچھ بھی کہہ لیے لیکن ان کے دشمن بھی ان کو کرپٹ نہیں کہہ سکتا یہ اتنا بڑا وصف ہے ایمانداری جو کہ پیغمبروں اور ولیوں کا وصف ہیں اور بے ایمانی اور دھوکہ دینا شیطان کا وصف ہے۔
حضور اقدس(صل اللہ علیہ وسلم ❤) جب بھی کسی محاذ  پر اپنے صحابہ کرام کو بھیجتے تو فرما تے کہ بے ایمان بندہ کبھی سچا نہیں ہو سکتا۔ 
تو ایمانداری کے اس وصف کے ساتھ جینا  ہی خوش نصیبی ہے ۔ 
جس طرح کسی غریب بندے کی مدد کرنا اخلاق ہے اسی طرح کسی برائی کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا بھی اخلاق ہے ۔
حدیث پاک میں اتا  ہے کہ ظلم و برائی کو دیکھ کر چھپ رہنے والے کی مثال گونگے  شیطان کی سی ہے۔ 
خان صاحب ہر محاذ سے سرخرو بھی شاید اپنی نیت اور ایمانداری کی وجہ سے ہو رہے ہیں  اگر اپ  برائی کو پسند نہیں کرتے برائی کے خلاف ہوتے ہو۔ تو قدرت اپنی مہربانی خود کرتی ہے۔  
گیارہ جماعتیں اکھٹے ہو کر بھی ایک حکومت جس کے پاس میجارٹی بھی نہیں کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ 
ان سارے ٹینش والی خبروں سے ہٹ کر ایک بہت ہی خوشگوار خبر سننے کو ملی کہ حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیاں مذاکرات کامیاب ہو گئے انہوں نے اپنی تاریخ بیس اپریل تک بڑھا دی ہے اس کامیاب کے لیے دونوں فریق یقینا اور عوام  مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ 
خدانخواستہ اگر تاریخ آگے نہ بڑھتی اور دھرنا ہوتا اور حکومت کوئی اونچ نیچ کرتی تو یقینا  اس ملک کی میجارٹی کی دل شکنی ہوتی اور عوام حکومت سے بد ظن ہوتےاور دوسری طرح اور بھی مسئلے مسائل کھڑے ہوتے۔
ہمارا سسٹم بھی بڑا عجیب ہے اس سسٹم کو بھی شاید ہر جگہ درباری ٹائپ جھتہ چائیے جو اس کے مزاج کے مطابق ہو۔
 یعنی جو جلسوں میں ملک اداروں کو گالم گلوچ کرے وہ ازاد پھر رہے ہیں بلکہ ان کو حلوہ اور چائے  کی پیش کش   ہوتی ہیں جو علاقائی تعصب پھیلاتے ہیں ۔ ان کو جلسہ کرنے کی آزادی  ہے۔
جو پرامن طریقے سے اپنا ایک مقدس کاز لے کر ارہے ہیں ان کے لیے فور  شیڈول قید و بند کی صحوبتیں شیلنگ اور فائرنگ  ہیں یہ ڈبل اسٹینڈرڈ یہ معیار اس ملک کو اس نہج تک پہچایا ہے۔
 کہ اج ملک لوٹنے والوں  کی یہ جرت ہے کہ وہ اپنے چند کارکنوں کے ساتھ جو مرضی چاہے  سنا  لے  کر لے پوچھنے والا کوئی نہیں ۔
بہرحال ٹی ایل پی کے ساتھ نیا معائدہ ایک خوش آئند بات ہے یہ ان کی دور اندیشی اور ملک سے محبت ہے کہ انہوں نے حالات کو دیکھتے ہوئے مزید وقت دیا ۔ ورنہ پی ڈی ایم نے بڑی کوشش  کی تھی کہ ان کی تحریک میں یہ شامل ہو جائے ۔ان کی نوجوان قیادت نے صاف انکار کیا۔ 
 اور حکومت نے اس بات کی حساسیت کو سمجھا  کہ وہ منی ٹریل بچانے یا دولت بچانے کے لیے نہیں بلکہ  ایک بہت ہی نازک اور حساس مقدس  معاملے کے لیے برسرپیکار ہیں جن کے کارکن صرف  مدرسے  کے نہیں بلکہ  ہر عام و خاص پاکستانی ہے ۔جنہوں نے  اپنا  پیغام واضح طور پر ا مینار پاکستان میں دے دیا ہے۔
باقی کچھ کام ہمارے اپنے بھی  یعنی عوام کے بھی کرنے کے ہیں  اس گھٹیا  ملک جس  نے  ریاستی طور پر ہم سب کا دل زخمی کر دیا  کے چیزوں کا بائیکاٹ کیا جائے  کچھ پراڈکٹ میں خود بھی  استعمال کرتی تھی اس واقعہ کے بعد میں نے چھوڑ دی ہے۔
جو انسانیت کی بات کرتے ہیں اور جو دو ارب سے زیادہ انسانوں  کا دل زخمی کر کے اور ان کی روح پر وار کرنے کو ازادی سمجھتے ہیں ان کو یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ تمام  مسلمانوں خاص کر سنی مسلمانوں کو  جن کی زیادہ اکثریت ہے۔ کو ماں کے پیٹ میں یہ بات سیکھائی اور سمجھائی جاتی ہے کہ  جن کا اس نے کلمہ پڑھنا ہے ان کے ساتھ وفا اور محبت کیسے کرنی ہے۔  
اور اس کے لیے کوئی مولوی ہو یا ایک لبرل مسلمان اس وفا اورمحبت کے معاملے میں یک جا ہے اور اس پر کوئی کمپرومائز نہیں ۔
  پارلیمنٹ میں انے کے بعد پتہ چلے گا کون اس ملک کے عوام کی ترجمان ہے اور کون کالی بھیڑیا۔
ان تمام حقائق اور سچ کو  جاننا بہت لازمی ہے اور بہت ضروری ہے کہ کون کس کا ادمی ہے۔۔
You might also like

Leave a comment

error: Content is protected!!