چترالی ثقافت اور انصاف کے طلب گار لاشیں
سید ریاض علی شاہ
پچھلے دنوں ہمارے چترالی ثقافت پر ایسا ضرب لگا کہ ہم سر اٹھانے کے قابل نہیں رہے ۔ ہوا یوں کہ چترال کے دو بچیاں جن کی عمریں بمشکل 5 سے 7سال کے درمیان ہوںگی، گھر کے فنکشن میں ڈانس کرتے نظر آۓ ۔ دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر بھونچال آگیا۔ ہر طرف عزت بچاؤ مہم شروع ہوگئی۔ ہر کوئی فحاشی اور عریانی پھیلانے کے خلاف فتویٰ دینے لگے اور ساتھ ساتھ انکے والدین کو موٹے موٹے گالیوں سے نوازنے لگے۔ اور مجھ جیسے ناسمجھ یہ سمجھنے کی کوشش کررہا تھا کہ ان معصوموں کو پتہ نہیں کہ فحاشی یا عریانی کس چڑیا کا نام ہے۔
خیر یہ ان لوگوں کے نظروں کا کمال ہے۔ کسی کی سوچ کو تو ہم لوگ نہیں بدل سکتے۔ ہماری عزت اور غیرت پتلوں اور پاجامے کی حد تک رہ گیا ہے۔ ۴ سال کے بچی کو بھی نہیں بخشتے۔
پھر اس دوران سوشل میڈیا پر میرے دوست اور بھائی اولاد الدین شاہ کا کالم پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس میں چترال کے علاقے اویر میں غیرت کے نام پر دہرے قتل کا ذکر تھا اور اس کے بعد تشدد زدہ لاش کی تصویریں بھی سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں۔ دو دن تک فیسبکی دانشوروں کے لب کشائی کا انتظار کرتا رہا جن کی عزت دو معصوم بچیوں کے رقص کرنے سے مجروح ہوا تھا اور میں بے بصری سے ان کے غیرت کے جاگنے کا انتظار کرتا رہا کہ یہ لوگ اس اندہناک واقع کی مذمت کریں گے بھی کہ نہیں۔ لیکن نہیں یہ تو ہمارا مسلہ ہے ہی نہیں۔ ہم جیسے لوگوں کو زیادہ تر دو قسم کیڑے کاٹتے ہیں سیاسی اور ثقافتی۔ سیاسی طور پر ایک دوسرے کے سیاسی رہنماؤں کو کر پٹ اور جھوٹا ثابت کرنے کے لئے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور دوسرا کوئی ٹک ٹاک بنائے یا کوئی چھوٹا کپڑا پہنے ہماری ثقافت پر دستی بم سے حملہ ہوتا ہے۔
پرویز ہود بائی نے کیا خوب کہا تھا۔ ثقافت کے نام پر رقص کرنا مذہب (غیرت)کے نام پر قتل کرنے سے کہیں بہتر ہے۔
اس دہرے قتل کیس میں مذہبی اور سیاسی رہنما کب لب کشائی کریں گے شدت سے انتظار ہے۔ امید پہ دنیا قائم ہے۔ نا امیدی گناہ ہے۔
ہر کسی کا اپنا سوچ ہوتا ہے۔ ہم نے ایشوز کو کبھی سنجیدہ نہیں لیا سادہ قتل کا کیس ہوتا ہے ہمیں پتہ ہے کہ جرم ہے۔ پھر بھی اپنے فلسفیانہ سوالات جھاڑتے ہیں۔
۔ کیا فلسفہ بیان کیا ہے لکھاری نے۔ ایک ٥ یا ٧ سال کی لڑکی جس کو فحاشی یا بے پردگی کا پتہ نہیں چلتا اس معصوم کے ناچنے سے کیا ہوتا ہے؟
٥ یا ٧ سال کی عمر سے کسی مرد نے بھی کباڑ کی تنگ پتلون پننا شروع کی ہو اور ھیپّیوں کا عام حلیہ بنا کر ننگے سر پھرنے اور آزاد گپ شپ کا عادی ہو ایسے شخص کو بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ اس میں کوٸی خرابی بھی ہے کیونکہ وہ اسکی فطرت بن جاتی ہے۔
طارق عزیز نے ایک بھکاری کو کہا تم جوانمرد ہو ہاتھ پھیلاتے کچھ تکلیف محسوس نہیں ہوتی تو ان کو بھکاری نے کہا کہ اسمیں کیا مشکل ہے بس ہاتھ ہی تو پھیلانی ہے۔
شرم، حیا اور غیرت ختم ہوجاٸے تو پھر انسان کسی حد تک گر سکتا ہے۔