Chitral Today
Latest Updates and Breaking News. Editor: Zar Alam Khan.

قلم کا رشتہ

نوائے سُرود

شہزادی کوثر

داستان گوئی اور تخلیقی صلاحیت کا ٓاپس میں گہرا اور مضبوط ربط ہے۔ ابن ٓادم شروع ہی سے سننے اور سنانے کا شیدائی واقع ہوا ہے۔ اپنے ساتھ ہونے والے اچھے برے یا انہونے واقعات کے بارے  میں دوسروں کو آگاہ کرنا اور ان کے چہروں کے بدلتے تاثرات سے محظوظ ہونااس کا دل پسند مشغلہ رہا ہے۔

قدیم دور میں داستان گوئی وقت گزاری کا اہم ذریعہ تھی۔ گزرتے وقت کے ساتھ سننے سے زیادہ کہنے پر زور دیا جا رہا ہے جو تخلیقات کی صورت میں وجود میں آرہی ہیں۔ جن میں زندگی کی صداقتوں کے ساتھ وارداتِ قلبی کی سچی ترجمانی کی جاتی ہے۔معاشرے کا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں بچا جس پر قلم نہ اٹھایا گیا ہو، زندگی گونا گوں کیفیات کی حامل ہے طبقاتی کشمکش میں پسنے والے لوگوں کے مسائل، بھوک، افلاس، اخلاقی پستی،سماجی اقدار ہرایک پر بہت کچھ لکھا گیا جو نہ صرف اپنے ملک بلکہ بین الاقوامی معاملات سے ہمیں با خبر رکھنے کا ذریعہ ہے۔

انسان اپنے ماحول سے کنارہ کش نہیں رہ سکتا ،کسی نہ کسی حوالے سے اس کے معاملات ،حوادث اور واقعات سے جڑا ہوتا ہے۔خود پر بیتنے والے حالات سے لے کر اوروں پر گزرنے والے سانحات کا بلواسطہ یا بلاواسطہ گواہ ہوتا ہے، جس میں دوسرے افراد کو بھی شامل کر کے اسے راحت ملتی ہے۔ اس عمل میں وہ صرف فرد نہیں رہتا بلکہ سماج کی ٓانکھیں اور زبان بن جاتا ہے، تاہم اس ذمہ داری کی ادائگی میں زندگی،معاشرے اور تہذیب کا ترجمان اور عکاس بننا ضروری ہے۔ گویا انسان قدرت کی طرف سے بخشی گئی صلاحیت کے ذریعہ معاشرے کی اصلاح چاہتا ہے۔یہ ایک سماجی عمل ہے جس سے قلم کار گہرے شعور اور احساس کی بدولتٓ ٓاسمان کے چمکتے ستاروں کی بجائےزمین سے ابھرنے والے مسائل کی طرف اپنا رخ پھیرتا ہے اورانہیں  ان کی پوری دہشت سامانیوں سمیت واضح کر کے ان کا مداوا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔کتنے ہی خوفناک واقعات،المناک حادثےاور شرمناک حرکات ہمارے ارد گرد رونما ہوتے رہتے ہیں انہیں دلیری کے ساتھ منظرِعام پر لانے والے یہی لوگ ہیں جن کے اندر زندہ رہنےاور زندگی سے پیار کرنے کی خواہش ہے وہ جن الفاظ کو اپنے قابو میں لاکرمعاشرے کی سچی تصویر پیش کرتے ہیں وہ صرف ٹوٹے پھوٹے حروف نہیں ہوتے بلکہ ان کے اندرسماج کی پوری شخصیت رچی بسی ہوتی ہے۔

جب فرد سماج سے اپنا تعلق برقرار رکھنا چاہتا ہے تواجتماع کے خیالات اور خواہشات کو انفرادی عمل کے تجربے سے گزار کرانہیں الفاظ کا لباس عطا کرتا ہے، پھر وہ باتیں فرد تک محدود نہیں رہتیں بلکہ تمام لوگوں میں پھیل کر ان کے زخموں پر مرہم کا کام بھی دیتی ہیں۔ جیسے کسی بیمار کی تپتی ہوئی پیشانی پر ہاتھ رکھنے والے مسیحا کی طرح انسانیت کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے والے قابلِ احترام لوگ ہیں جو قلم سے اپنا رشتہ نبھانے اور اس کی محبت کا حق ادا کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں۔زمان و مکان سے اپنے دلی لگاو کی وجہ سے نشتر لے کر سماج کے پھوڑوں کو چیر پھینکنے اور جمالیاتی لمحوں کو امر کرنے میں لگے ہوتے ہیں۔

انہیں انسانی رشتوں کے تقاضے کا بھی خیال ہوتا ہے اور انسانوں کے درمیان نا قابلِ عبور خلیج کا احساس بھی، اس لیئے کبھی کبھاریہ لوگ وہ سکون اور خوشی حاصل نہیں کر پاتے جو دوسرے لوگوں کو نصیب ہوتی ہے،کیونکہ یہ بہت حساس ہوتے ہیں حالات سے چشم پوشی نہیں کر سکتے اپنے اپ کو دوسروں کی جگہ پر رکھ کر ان کے دکھوں کو محسوس کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے انسانی ہستی اور زندگی کی  لاچاریوں کا جو تجربہ انہیں حاصل ہوتا ہے اسے دوسرے لوگ واقف نہیں ہوتے۔

 

 

You might also like

Leave a Reply

error: Content is protected!!