لاوارث ہسپتال
شیرولی خان اسیر
پیچھلے سال نومبر میں میں نے تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال بونی کی عمارت کی حالت زار کے بارے میں لکھا تھا جس میں ٹوٹی چاردیواری اور کھنڈر کا منظر پیش کرنے والے ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کے رہائیشی کوارٹرز کی تصویریں بھی دی تھیں۔ اس کے ایک ہفتے بعد دیکھا تو مشینوں کے ذریعے ہسپتال کے مشرق کی طرف کھودائی بڑے زور شور سے جاری ہے۔بتایا گیا نئی عمارت بن رہی ہے ۔اس کے ساتھ چاردیواری بن جائے گی۔ یہ بھی معلوم تھا کہ یہ پروجیکٹ2016 میں ٹینڈر ہوا تھا اور نا معلوم وجوہات کی بنا پر کام تعطل کا شکارتھا۔ ہم نے کہا پھر بھی درست ہے۔ دیر آید درست آید کی تسلی آمیز جملہ بول کر اپنا دل خوش کرلیا۔ اس کے بعد میں چترال سے باہر رہا اور اس خوش فہمی میں رہا کہ سردیوں میں کام جاری رہا ہوگا کیونکہ حالیہ سردیاں خشک رہی تھیں۔ اپریل کے وسط میں جب مذکورہ ہسپتال آنے کا اتفاق ہوا تو کوئی اور منظر سامنے تھا۔ ہسپتال کی بچی کچھی سکیوریٹی بھی تباہ کردی گئ تھی۔ مٹی کے ڈھیر ڈاکٹرز ریذیڈنٹس کی چاردیواری کے بیرونی حصے کے ساتھ اس طرح جمع کیے گئے تھے کی دیوار سے پانج چھ فٹ اونچے ہوگئے تھے۔ لیڈی ڈاکٹر کی رہائشگاہ کا نہ صرف پردہ ختم ہو چکا تھا بلکہ انتہائی غیر محفوظ بھی ہوگئ تھی۔ مریضوں کے وارڈز کی کھڑکیوں کی سطح سے اونچا مٹی کا ملبہ تھا۔ معمولی ہوا اسے اڑاکر وارڈز کے اندر جمع کرسکتی ہے اور مٹی مریضوں کے پھیپڑوں میں جاسکتی ہے۔جو عمارت یہاں بننے والی تھی اس کا فرش بچھانے کے بعد کام بند کردیا گیا تھا۔ دیواروں کے درمیان پلرز کے لیے جو سریے لگائے گئے ہیں انہیں زنگ کھا گیا ہے۔ انہی کو سمنٹ میں دبایا جائے گا جو زلزلے کے معمولی جھٹکے سے ٹوٹ سکتے ہیں۔
اس بدنما منظر کو دیکھ کر دل کو دکھ ہوا۔ اگر بجٹ نہیں تھا تو کام کا آغاز کیوں کیا گیا؟ متاثرہ چاردیواری اور رہائش گاہوں کی بحالی سے پہلے نئ عمارت کی تعمیر کی منطق میں آتی ہے۔ کیا ہسپتال کے مریضوں اور عملہ کی سکیورٹی اور ان کی صحت کوئی مغنی نہیں رکھتی؟ کیا کھودائی کے نتیجے میں نکلنے والی مٹی اور پتھروں کو ہٹانا ٹھیکےدار کی ذمے داری نہیں؟ کیا ہسپتال کے اندر صحت افزا ماحول قائم رکھنا میڈیکل سپرنٹینڈنٹ کے فرائض میں شامل نہیں؟ ہم کس سے یہ سوال کریں؟ کون جواب دے گا۔ ابر خدا ناخواستہ کوئی انہونی واقعہ پیش آیا تو اس کا ذمے دار کون ہوگا۔ تبدیلی کا نغرہ دینے والے پی ٹی آئی کے ضلعی عہدیدار اور کارکن کہاں سوئے ہوئے ہیں؟ ایم پی اے اور ایم این اے کی آنکھیں کور ہوگئی ہیں کیا۔ دسمبر کے وسط میں ایم پی اے سردار حسین صاحب نے اس ہسپتال کا دورہ کیا تھا۔ اس دوران راقم الحروف سے بھی ملاقات کی تھی جب میں اپنی بچی ڈاکٹرزہرہ کی رہائشگاہ میں موجود تھا۔ انہوں نے بہت ساری باتوں کے علاؤہ یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ 25 دن کے اندر ہسپتال میں ایک دہائی کا تقرر کرائیں گے کیونکہ اس ہسپتال میں صرف دو دہائیاں کام کررہی ہیں جن کو بارہ بارہ گنٹھے ڈیوٹی دینی پڑتی ہے۔ ہسپتال میں صرف ایک لیڈی ڈاکٹر ہے وہ چوبیس گھنٹے ڈیوٹی دیتی ہے۔ کیا اسے آرام کرنے اورچھٹی کا حق حاصل نہیں۔
میں اس تحریر کے ذریعے سیشن جج بونی سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال بونی کی اس مخدوش حالت کا نوٹس لے اور ذمے داروں کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑے کرکے انصاف کا تقاضا پورا کرے۔