کی وجہ سے بیدار ہوا تو سینے میں ایسی سخت تکلیف محسوس ہوئی کہ مجھے سانس میں دشواری ہورہی تھی۔ شاید میں نے چیخ ماری تھی جس سے تاتی میرصاحب خان مرحوم بیدار ہوگئے تھے اور پوچھ رہے تھے، “بیٹا! کیا ہوا؟” میں انہیں بمشکل بتا سکا کہ میرے سینے شدید درد ہو گیا ہے۔ وہ مجھے لے کر اٹھے اور رتھینی گھر لے آئے اور میری چچی “چونجِک نن” کو جگایا۔ اس نے آگ جلائی اور میرے درد کو مالش کرنے لگیں۔ ایک ہی جگہ ایسا جان لیوا قسم کا درد تھا کہ میں سانس نہیں لے پا رہا تھا۔ وقت رات کا آخری پہر تھا۔ پتہ نہیں چونجِک ماں نے کیا کچھ مجھے پلایا کہ تھوڑا سا افاقہ ہوا اور رات گزر گئی۔ میں گھر کے اندر اپنی چچی کے بستر پڑا رہا اور چچی ناشتہ تیار کرنے لگ گئی۔ ابھی ناشتہ تیار نہیں ہوا تھا کہ سنوغر کے طبیب گلاس خلیفہ گھر میں داخل ہوئے۔ خلیفہ کی بیگم رخمت شفا میکی کی بہن تھیں اور خلیفہ سسرال آئے تھے اور صبح صبح ہمارے گھر تشریف لائے تھے۔
میرے بابا اور چچے خلیفہ کے مرید تھے اس لیے وہ جب بھی پرکوسپ آتے ہمارے گھر ضرور آیا کرتے۔ انہیں دیکھ کر چچی بہت خوش ہوگئیں۔ خلیفہ جب بیٹھ گئے تو ان کی نظر مجھ پر پڑی اور پوچھا کہ بیٹا سکول نہیں گیا؟ چچی نے سارا ماجرا سنادیا۔ خلیفہ نے پوچھا کہ بلغم میں خون تو نہیں ہے؟ میں نے بتایا کہ ابھی خون آنا شروغ ہوگیا ہے۔ خلیفہ نے چھوٹی ماں کو مخاطب کرکے کہا ” بیٹی! اس بچے کو “زتوکجم” ہوگیا ہے۔ تھوڑاکاویر لاؤ اور فوراً خال پانی میں ابال کر اسکو پلاؤ”۔ چھوٹی ماں نے جلد ہی اس کی ھدایت پر عمل کیا اور کاویر اُبال کر مجھے پلایا۔ خلیفہ نے بتایا کہ یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ وہ موقع پر یہاں حاضر تھا ورنہ پتہ نہیں آپ لوگ اس کا کیا علاج کرتے کیونکہ یہ بیماری بہت ہی خطرناک ہوتی ہے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ آج کے بعد یہ چیز صبح، دوپہر شام اس کو پلایا کریں۔ گھی، دودھ اور گوشت کی مکمل طور پر پرہیز رکھیں۔ چائے بغیر دودھ کے پلائی جائے۔ اس دن سے بغیر گھی مصالحہ کے کاویر کا سوپ میری خوراک بن گیا۔
سینے کا درد بہت ہی سست رفتاری سے کم ہونے لگا البتہ کاویر کے پانی پینے سے بلغم کا خون آہستہ آہستہ ختم ہوگیا۔ خلیفہ نے مکمل تندرست ہونے تک باقی ہر خوراک سے پرہیز کی سختی کیساتھ تاکید کی تھی۔ جب طبیب نے میری بیماری کو زتوکجم بولا تھا تو اس کا اردو یا انگریزی نام مجھے معلوم نہ تھا۔ میں بعد میں مجھے معلوم پڑا کہ “زتوکجم” نمونیا کو کہتے ہیں۔
اس بیماری اور سخت پرہیز کے دوران ایک دن گھر کی موٹی تازی بکری چراگاہ (غاری) میں پہاڑ سے گرتے پتھر کا شکار ہوگئی جسے حلال کرکے گڈریے نے گھر پہنچا دیا۔ عموماً اس موسم میں گوشت کی قلت ہوتی ہے کیونکہ لوگوں کی بھیڑ بکریاں گرمائی چراگاہوں میں ہوتی ہیں۔ جب اس قسم کی مرگ ناگہانی سے گوشت کا ذخیرہ ہاتھ آتا ہے تو اسے رزق غائبی قرار دے کر بڑی بڑی بوٹیاں بناکر، یخنی بنا کر۔ بھون کر یا سجی یا سیخ کباب بناکر مزے لے لے کر کھایا جاتا ہے۔ خاص کرکے ہمارے گھر میں گوشت سب کو بہت زیادہ مرغوب غذا تھا۔ ہمارے گھر میں کافی بڑی تعداد کی بھیڑ بکریاں پا لنے کا رواج رہا ہے۔ اس زمانے میں تو بیشمار جانور پالتے تھے۔ چارغیری میں تین ساڑھے تین سو تک صرف بکریاں ہی ہوا کرتی تھیں۔ یہاں پرکوسپ میں بھی ان کی کمی نہ تھی۔ اس کے علاوہ میرے ابو اور چھوٹے چچو ( چیق تتی) دونوں زبردست شکاری تھے۔ شکار کا گوشت شکار کے موسموں میں وافر مقدار میں دستیاب ہوتا تھا۔ آئی بیکس کا شکار کے علاوہ فاختوں اور مرغابیوں اور تیتر چکور کا شکار کرتے تھے۔ چچو شیرنبی خان چھوٹے شکار کے ماہر تھے۔
میں نے ان کو شکار سے خالی ہاتھ واپس آتے کبھی نہیں دیکھا ہے۔یوں ہم بچے زیادہ گوشت خورے تھے۔ لیکن پرہیز کے سبب اس بکری یعنی” غائیبی شکار” کا گوشت میں نہیں کھا سکتا تھا۔ جب گوشت پکایا جاتا تو میرے چھوٹے چچو نہیں کھایا کرتے۔ وہ گوشت دو تین دن کے اندر ختم ہوگیا لیکن چیق تتی نے اسے ہاتھ نہیں لگایا۔ اس نے کہا پہلے دن ہی کہا تھا، ” میرے بیٹے کو پرہیز ہے اس لیے میں یہ گوشت نہیں کھا سکتا”۔ کیا آج کے زمانے میں ہم اس طرح کی محبت اپنے اندر پال سکتے ہیں؟ میں سوچتا ہوں اور اپنے ضمیر سے پوچھتا ہوں کہ کیا میں نے اپنے تتی کی صرف اسی ایک قربانی کا تھوڑا سا بدلہ دے پایا ہے؟ ضمیر بولتا ہے کہ “شرم کرو، تم نے اس کا عشر عشیر بھی ادا نہیں کیا ہے، اب بھی وقت ہے۔ تمہاری خوش قسمتی ہے کہ تمہارا وہ پیار کرنے والا چچو ابھی زندہ ہیں”۔ اللہ پاک ہمیں اپنے محسنوں کے احسانات یاد رکھنے اور اپنی بساط کے مطابق خدمت کا موقع عطا فرمائے، آمین!]]>