سابق ریاستوں پر ٹیکسوں کا نفاذ
صدا بصحرا
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی ؔ
گلگت بلتستان، ملاکنڈ ڈویژن اور قبائلی ایجنسیوں کے عوام نے 1947میں جذباتی ہو کر پاکستان میں شمولیت اور پاکستان کے ساتھ الحاق کا جو فیصلہ کیا تھا۔ وہ فیصلہ پاکستان کی بعض سیاسی جماعتوں کو اب پسند نہیں آیا ہے۔
سیاسی جماعتوں کے بعض لیڈروں نے پاکستان کے الحاق کے فیصلے پر عوام کو جو سزا دینے کی ٹھان لی ہے اور یہ سزا قسطوں میں دی جا رہی ہے۔ اس کی پہلی قسط دہشت گردی کے ذریعے لائی گئی۔ دوسری قسط ترقیاتی فنڈ سے محرومی اور بنیادی ڈھانچے کی بربادی تھی۔ اب اس سزا کی تیسری قسط ٹیکسوں کے نفاذ کی صورت میں لائی گئی ہے۔
گلگت بلتستان اور فاٹا کے نام سے موسوم قبائلی ایجنسیاں ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔ ملاکنڈ ڈویژن کی سابقہ ریاستوں کے عوام کو ٹیکسوں کے ذریعے الحاق پاکستان کے نا قابل معافی جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔ اس ناجائز اور ناروا فیصلے کے خلاف ملا کنڈ ڈیژن کی سابق ریاستوں کے عوام سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر آگئے ہیں۔ ہڑتالوں کے ذریعے زندگی کے معمولات کو مفلوج کر دیا گیا ہے اور حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے۔عوام کے تین مطالبات ہیں۔ ملاکنڈ کی سابق ریاستوں کو مردان اور نوشہرہ کے برابر حقوق، ترقیاتی فنڈ اور انفراسٹرکچر دیدو۔
پھر ٹیکس لگاؤ۔ دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ دہشت گردی سے متاثرہ ملاکنڈ ڈویژن میں غربت کے خاتمے، بے روزگاری سے نجات اور تعلیم و صحت کی بنیادی سہولتوں کے لیے خصوصی ترقیاتی پروگرام دیدو۔ پھر ٹیکس لگانے کی بات کرو۔ تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ الحاق پاکستان کے وقت بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ والیان ریاست کے معاہدے منظر عام پر لے آؤ۔ ان معاہدون کی روشنی میں اگر ٹیکس لگانے کی گنجائش ہے تو ٹیکس لگاؤ۔ ملاکنڈ ڈویژن کے عوام کہتے ہیں کہ حکومت نے ہمارے مطالبات پر غور نہیں کیا تو ہم بھی فاٹا اور گلگت بلتستان کے عوام کی طرح بندوق اٹھا کر اپنے حقوق کی جنگ لڑ ینگے اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بھی یہی چاہتی ہے۔
صوبا ئی حکومت کہتی ہے کہ صدر ممنون حسین نے وزیراعظم کی سفارش پر ٹیکس لگا یا ہے۔ وفاقی حکومت کہتی ہے کہ صوبائی کابینہ اور وزیراعلی نے گورنر کے ذریعے وفاقی حکومت کو قانون کامسو دہ بناکر بھیجا ۔وفاقی حکومت نے اس کو قواعدوضوابط کے تحت منظور کیا۔اگر صدر مملکت اس پر دستخط نہ کر تے تو عمران خا ن میڈیا کے سامنے آکر دھمکی دے دیتا اور کہتا ’’اوے ممنون حسین تمہارے ساتھ دیکھوں گا ۔ اگرمیں وزیراعظم بنا تو تمہارا بُراحشر ہوگا “وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور صوبائی گور نر اقبال ظفر جھگڑا نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ٹیکس لگانے کا فیصلہ صوبائی حکومت نے کیا ہے ۔ قانون کے مطابق دستخط صدر مملکت نے ہی کرنا ہوتا ہے۔ صوبائی حکومت کیساتھ ملاکنڈڈویژن کے عوام کے دو مسائل ہیں ۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ سوات کے سوا ملاکنڈ کے کسی ضلع کے عوام نے تحریک انصاف کو ووٹ نہیں دیا۔اس کا بد لہ ٹیکس کی صورت میں لیا جارہا ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ چترال کی سابق ریاست میں نسلی اور لسا نی اقلیت کے خلاف صوبائی حکومت کینہ اوربغض رکھتی ہے ۔تین سالوں سے چترال کے عوام کو سالانہ تر قیاتی پر وگرام، انرجی فنڈ اور دیگر مرا عات سے محروم رکھا گیا ہے ۔پن بجلی گھروں کے سات بڑے منصوبے بند کئے گئے ہیں ۔چترال یونیورسٹی اور چترال بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجو کشن کا منصوبہ بند کیا گیا ہے ۔تین سالوں میں عمران خان اور پر ویز خٹک نے چترال میں کسی جلسہ سے خطا ب نہیں کیا ۔3 سالوں میں پی ٹی آئی کی قیادت نے چترال کے کسی وفد سے ملاقات نہیں کیا ۔صوبائی حکومت کے ساتھ چترال کے سابق ریاست کے عوام کا ایک اور مسئلہ تا ریخی طور پر چل رہا ہے ۔ 1947 ء سے 1969 ء تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو ا ۔ 1969 ء سے 2016 تک یہ مسئلہ جوں کا توں رہا۔
مسئلہ یہ ہے کہ چترال خیبر پختو نخوا کی سب سے بڑی اور سب سے پرانی ریاست تھی ۔اس کی تا ریخ 1050 سال اور اس کا رقبہ 14850 مر بع کلو میٹر ہے ۔جو صوبے کا 20 فیصد بنتا ہے ۔لسانی اور نسلی اقلیت ہو نے کی وجہ سے 1947 ء میں چترال کو پیچھے دھکیل دیا گیا ۔1969 ء میں ریاست کو صوبے میں ضم کر تے وقت دو بڑی زیادتیاں کی گئیں ۔ریاست چترال کے دو ضلعوں کو توڑ کر ایک ضلع بنا یا گیا ۔یہ نا روا ظلم تھا۔ ریاست کے 5 بڑے آفیسر سنیار ٹی میں صوبے کے 5 بڑے پوسٹو ں پر فائز ہو نے والے تھے۔ محمد جناب شاہ ڈائریکٹر تعلیم بنے والا تھا ۔شہزادہ صمصام الملک ، میر سبحاں الدین ، معراج الدین اور شہزادہ محی الدین کمشنر بنے والے تھے ۔محمد جناب شاہ کو جبری ریٹا ئر کیا گیا ۔باقی آفیسروں کو تین درجہ گھٹا کر تحصیلدار بنایا گیا ۔لسانی اور نسلی اقلیت کو کمشنر بنے سے روکا گیا ۔انضمام کے وقت ترقیاتی فنڈ کے سلسلے میں چترال کے ساتھ زیادتی کی گئی ۔آج دیگراضلاع میں پختہ سڑکوں کی لمبائی 4 ہزار کلو میٹر سے 8 ہزار کلو میٹر تک ہے ۔صوابی میں 4 ہزار اور دیر میں8 ہزار کلو میٹر پختہ سڑکیں ہیں ۔جبکہ چترال کے 14850 مربع کلو میٹر علاقے میں پختہ سڑکو ں کی کل لمبائی صرف 88 کلو میٹر ہے ۔ہزار کلومیٹر کے مقا بلے 100 کلو میٹر بھی نہیں۔
پچاس کلو میٹر بھی نہیں۔ صرف دس کلو میٹر۔ شواہد اور ریکارڈ کا جا ئز لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ریاست ہنزہ کے حکمران میر جمال خان ریاستی حکمرانوں میں سب سے زیادہ دور اندیش اور قابل شخص تھے ۔انہوں نے تجویز دی کہ ہنزہ ،نگر ،گلگت بلتستان، ا مب ، سوات ، دیر اور چترال کے ریاستوں کا ایک کنفیڈریشن بنا کر ہم گاندھی اور جناح کے ساتھ سو دے بازی کر یں گے ۔ان کے سامنے مطالبے رکھیں گے ۔ جس نے مطالبات مان لئے۔ہم اس کے ساتھ الحاق کر ینگے ۔سوات کے حکمران میاں گل جہانزیب اور چترال کے حکمران ہزہائی نس مظفر الملک نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا ۔امب اور دیر کے نوابوں نے والی سوات اور مہتر چترا ل کا ساتھ دیا اور ملاکنڈویژن کی ریاستوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا علان کیا ۔تاہم 7 نومبر 1947 ء کو الحاق کی دستاویز پر دستخط کے وقت 6 شرائط رکھی گئیں ۔بابائے قوم نے 9 شرائط کو مان لیا ۔ان میں اندورنی خود مختاری اور ٹیکسوں سے استشنا ء کی دو شرائط بے حد اہم تھے۔ یہ معاہدہ انسٹرومنٹ آف ایکسیشن کہلاتا ہے۔ اس پر بابائے قوم کے ساتھ والی ریاست نے دستخط کیا ہے ۔آج ہم میر آف ہنزہ میر جمال خان کی فراست اور دوراندیشی کو سلام پیش کرتے ہے۔
گزشتہ 3 سالوں میں میاں نواز شریف نے عمران خان اور پرویز خٹک کے 110 مطالبات میں سے صرف ایک مطالبہ تسلیم کیا ہے اور وہ ملا کنڈ ڈویژن کی سابق ریاستوں کے عوام پر ٹیکسوں کا ناروا بوجھ ڈالنے کی تجویز ہے ۔اگر دیکھا جائے تو ملاکنڈ ڈویژن کے 7 اضلاع میں بے چینی پھیلانے کی ذمہ داری پی ٹی آئی ، جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ( ن) پر بھی عائد ہو تی ہے۔ عوام کی تر جمانی کر نے والی 3 اہم جماعتوں نے اس ظلم کے خلاف احتجاج جاری رکھنے کا علان کیا ہے ۔جمعیتہ العلمائے اسلام (ف )، اے این پی اور پی پی پی نے عوام کاساتھ دیا ہے ۔جماعت اسلامی ٹیکس لگاتے وقت حکومت کے ساتھ تھی ۔اب احتجاج میں عوام کے ساتھ ہو نے کا دعویٰ کر تی ہے “. جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی