No school for girls in Yarkhun Lasht
چند طالبات نے ہمارے نمائندے سے باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ تعلیم حاصل کرنے کا ان کو بہت شوق ہے یہی وجہ ہے کہ وہ لڑکوں کے سکول میں سبق پڑھنے کیلئے دور دراز علاقوں سے پیدل آتی ہے مگر یہ سکول بھی صرف آٹھویں جماعت تک ہے اس کے بعد یا تو یہاں سے ڈھائی سو کلومیٹر دور جاکر چترال میں تعلیم حاصل کرنا پڑے گایا مزید تعلیم کو خیر باد کہنا پڑتا ہے۔
اسی سکول میں ابھی تک نہ تو بجلی ہے نہ پانی، اور نہ فرنیچر کافی مقدار میں موجود ہے۔یہاں پڑھنے والی چند طالبات نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کیلئے علیحدہ ہائی درجہ تک سکول بنایا جائے اور اس علاقے میں ایک ڈگری کالج بھی تعمیر کی جائے۔ اسی سکول کے ساتھ ایک سرکاری پرائمری سکول بھی ہے جس کی ابھی تک چاردیواری تک نہیں ہے اور یہاں بھی بچے اور بچیاں اکھٹے زمین پر بیٹھ کر محلو ط تعلیم حاصل کررہے ہیں۔سکول میں بجلی، پانی، فرنیچر، کھیل کا میدان کا نہ ہونے کے علاوہ یہاں چاردیواری تک نہیں ہے اور اکثر بچے سڑک کے کنارے کھیلتے ہیں جو کہ ان کیلئے حطرناک بھی ثابت ہوسکتی ہے۔
سکول میں کلاس روم کی کمی کی وجہ سے اکثر ایک کمرے میں دو، دو جماعتوں کے طلباء و طالبات کو بٹھائے گئے ہیں تاہم ہر جماعت کا منہ دیوار پر لگے ہوئے تحتہ سیاح کے محلاف سمتوں کی طرف ہیں۔ ایک کلاس کی بچوں کا منہ شمال کی جانب بورڈ کی طرف ہے تو دوسری جماعت کے طلباء کا منہ جنوب کی جانب بورڈ کی طرف ہے۔
اس سلسلے میں جب متعلقہ استاد سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا ہے کہ محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کا ٹھیکدار ان سے ایک لاکھ روپے بھتہ مانگتے ہیں اور کمیشن کا یہ رقم نہ دینے پر انہوں نے کام بند کیا مگر محکمہ مواصلات نے ان سے ابھی تک نہیں پوچھا۔ جبکہ سکول میں باتھ روم بھی غلط بنائے گئے ہیں اور غسل حانہ کا پانی بھی کموڈ کے ذریعے گٹر لائن میں جاتا ہے۔ اس وادی کے والدین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس سکول کی چاردیواری فوری طور پر بنوائے اور اس وادی میں طلباء و طالبات کیلئے علیحدہ علیحدہ ہائیر سیکنڈری سکول بنایا جائے تاکہ یہ لوگ مڈل پاس کرنے کے بعد مزید حصول علم کا سلسلہ منقطع نہ کیا کرے۔