Chitral Today articles

یہ عبرت کی جاء ہے

گل عدن چترال
\”وہ کسی ایسے جنگ سے ہار گیا \’جسکا شور صرف اسکے دل میں تھا۔۔۔!!\”
اس ایک جملے نے مجھے پچھلے تین دنوں جس اذیت میں مبتلا کیا ہے میں وہ الفاظ میں بیان نہیں کرسکتی۔
کسی نے بلکل ٹھیک کہا ہے کہ اس دور میں زندہ رہنے کے لئے بہت سا ہمت نہیں بلکہ صرف بے حسی چاہئے۔ گزشتہ دنوں میں البتہ کوئی نیا واقعہ تو نہیں کہہ سکتے روزمرہ کے واقعات ہیں۔ ٹی وی اداکارہ عائشہ آپا کی موت اور ملتان کے رہائشی 30 سالہ وقاص رضا کی خودکشی۔۔ گو کہ اس نوعیت کے واقعات ہمارے معمول کا حصہ بن چکے ہیں لیکن نجانے کیوں ان دونوں واقعات نے ایک بار پھر اندر سے جھنجوڑ کے رکھ دیا ہے۔ تکلیف اور دکھ اس بات کی ہے کہ جن حالات سے یہ دو افراد گزرے ہیں ہم بھی کہیں نہ کہیں انہی حالات کا شکار ہیں۔
عائشہ نامی بوڑھی ماں یا جوان بظاہر خوش باش زندگی سے بھر پور لڑکا ہر گھر میں موجود ہیں لیکن کسی پر کیا بیت رہی ہے یہ ساتھ رہنے والوں کو نہیں معلوم۔ ستتر سال کی بوڑھی ماں اور 30 سال کے جواں بیٹے دونوں کسی ایسی جنگ سے ہار گئے جس کا شور صرف انکے دل میں تھا۔ معاشرہ اس موت کا ذمہ والدین پر ڈالتا ہے یا اولاد پر لیکن مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی موت کی بنیادی وجہ \”تنہائی کا زہر\” ہے اور یہ زہریلی تنہائی ہم سب کے اندر ایک وبا کی طرح  پھیل رہی ہے۔ ہم سب نے جانتے بوجھتے خود پر مضبوطی کا خول چڑھا کر خود کو تنہا کر لیا ہے۔ یہ ہماری ایک ذہنی بیماری ہے۔ تنہائی بعض اوقات مقدر ہوسکتی ہے مگر اکثر اوقات یہ ہمارا انتخاب ہوتی ہے۔ لیکن یہ بھی کائنات کی حقیقت ہے کہ ہم جتنی کوشش کرلیں۔ دوستیاں کرلیں محفلیں سجائیں رشتے بنائیں ہماری تنہائی کو کوئی نہیں بانٹ سکتا۔ دنیا کے کتنے ہی نامور شخصیات زندگی کے آخری ایام میں کسمپرسی اور تنہائی کا شکار ہوئے۔عائشہ ایک عورت جو کھبی بیٹی بھی تھی بہن بھی خالہ پھوپھی چچی اور پھر ماں بھی ہے اس نے اپنی زندگی کے بہترین دنوں میں ہر رشتے کو نبھایا ہوگا اس نے ہر رشتے پر اپنی محبت ہمدردی توانائی دولت جو اس سے ہوسکا اس نے لٹا دی مگر آخر میں اسی بے حسی اور تنہائی کا شکار ہوگئی جس کے خوف سے ہم ساری زندگی رشتوں کے پیچھے بھاگتے  رہتے ہیں۔ اور جب تھک ہار کر بھاگنا چھوڑ دیں تو کوئی ایک لمحہ کے لئے  رک کر پیچھے مڑ کے نہیں دیکھتا۔ کسی کے پاس فرصت نہیں کہ آپکو سنے، سمجھے اور سنبھالے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تنہائی کا انتخاب کرتے ہیں حالانکہ ہمارے معاشرے میں جب کوئی بھی فرد مرد یا عورت خاص طور پرعورت اگر تنہا زندگی گزارنا چاہے تو ہم اسے بڑھاپے میں اولاد کے سہارے کی لالچ دیتے ہیں۔ تنہائی سے ڈراتے دھمکاتے ہیں۔۔ لیکن افسوس ایسے واقعات نے یہ تو ثابت کردیا ہے کہ شادی نہ مسائل کا حل ہے نہ تنہائی کا۔ برا وقت جب آتا ہے تو قریبی ترین رشتے بھی کسی کام نہیں آتے۔
میں اس بے رحم معاشرے میں انسانی اقدار کا ماتم کرتے کرتے تھک گئی ہوں۔ایک ایسی دنیا جہاں زندہ رہنے سے موت آسان لگے۔ جہاں زندگی موت کی انتظار میں گزرے۔ جہاں انسان طبعی موت مرنے سے پہلے نجانے کتنی بار مرتا ہو۔ آخر کب تک؟؟؟ ہم میں سے ہر دوسرے شخص کو دن میں بیسوں بار موت اور خود کشی کا خیال آتا ہے اور 24 گھنٹوں میں وہ تین سے چار بار خودکشی کا ارادہ بھی کر لیتا ہے لیکن ہر دوسرا شخص خودکشی کر نہیں گزرتا۔ ہر کوئی خود کو پہاڑ سے نہیں گراتا یا جا کے خود کو دریا کے حوالے نہیں کرتا۔ خود پر گولیاں نہیں چلاتا لیکن وہ جینا چھوڑ دیتا ہے۔ وہ جینا چھوڑ دیتا ہے۔۔۔ خود کشی ایک جسمانی موت کے علاوہ بہت سی اقسام  رکھتا ہے۔کوئی بھری جوانی میں بوڑھا نظر آجائے تو وہ عاشق یا پاگل نہیں ہوتا اس نے ایک دو نہیں بہت ساری خودکشیاں کیں ہوتی ہیں۔ کسی کو رنگ اچھے نہیں لگ رہے کوئی آہستہ آہستہ محفلوں سے دور ہوتا جارہا ہے۔۔ کسی نے تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔۔ کوئی مسلسل گھر نہیں جارہا یا گھر سے نکل نہیں رہا یہ سب زندگی سے منہ موڑنے کے علامات ہیں۔
ایک ان دیکھی تکلیف میں مبتلا ذہن اندر ہی اندر تناو کا شکار کسی سے شئر کرنے پر دل آمادہ نہیں۔ جگ ہنسائی کا خوف تماشے کا ڈر ہمیں مجبور کر رہا ہے کہ اپنے دکھ درد بس اپنے تک رکھیں۔ ماضی کا کوئی تلخ رویہ انسانی ہمدردی سے ہمارا اعتبار ختم کر چکا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس اذیت کو ہم اکیلے سہ نہیں پارہے لیکن ہم خود پر ظلم کر کے اکیلے ہی سب سہنا چاہ رہے یہ فیصلہ کہ سب کچھ خود کرنا ہے اکیلے لڑنا ہے۔ یہ سب ذہنی بیماریاں ہیں جن میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
لیکن ہم مسلسل بے حسی کا مظاہرہ کرکے سب کچھ جان بوجھ کر نظرانداز کئے جارہے ہیں کیونکہ شاید گناہوں کی کثرت کی وجہ سے ہمارے دل اتنے سخت ہوچکے ہیں کہ ہم کسی کو سہارا دینے سے بہتر اسے نظر انداز کرنا سمجھتے ہیں۔ وجہ  بند کمروں میں موبائل فون کے ساتھ ہمارا وقت اتنا پرفیکٹ گزر رہا ہے کہ نہ ہمیں ماضی کے پچھتاوے ستا رہے نہ مستقبل کے اندیشے۔ بس چل رہا ہے چلنے دے۔۔
چونکہ میرا عنوان بے حسی نہیں بلکہ ذہنی صحت ہے اس لئے میں تحریر کا مقصد ذہنی صحت کی ضرورت کو اجاگر کرنا ہے۔ نہ جانے ہم کب اتنی ترقی کریں گے کہ ذہنی بیماریوں کو بھی ایک بیماری  تسلیم کرکے اپنا اور اپنوں کا علاج کرواسکیں بلکل ویسے جیسے جسمانی بیماریوں کا علاج کرتے آرہے ہیں۔کب ہم سمجھیں گے کہ  اگر بلڈ پریشر یا شوگر کا بڑھنا یا کم ہونا باعث شرم نہیں ہے تو ذہنی مسائل بھی ندامت کا سبب نہیں ہونی چاہیے۔لیکن شاید ابھی بہت وقت ہے ہمیں اتنا بہادر ہونے میں۔
اس معاشرے میں ذہنی بیماریوں کو بیماری تسلیم کرنے کے لئے بہت حوصلے اور ہمت کی ضرورت ہے۔عائشہ خاتون اور یہ جوان ایک ذہنی بیماری کی مثال ہیں۔خود کو کافی سمجھنا۔۔۔ کسی پر اپنی کمزوری ظاہر نہیں کرنا کسی پر اعتماد نہیں کرنا کسی بھی حالت میں کسی کا احسان یا مدد اسپیشلی کسی کی مدد نہ لینے کی عادت ایک عام ذہنی بیماری ہے اور اس میں بہت لوگ مبتلا ہیں۔ ایسا کرتے کرتے ایک جان لیوا تنہائی آپکو اندر ہی اندر کھا جاتی ہے لیکن جب تک آپ کو اسکا احساس ہوجائے بہت دیر ہو جاتی ہے۔بوڑھی ماں اور بے حس اولاد ایک علیحدہ موضوع ہے جس پر بہت باتیں ہوئیں ہیں اور ہوتی رہیں گی لیکن ان روائتی کہانیوں کے پیچھے ذہنی صحت کا بھی عمل دخل ہےاگر کوئی مانے تو۔ابھی بھی دیر نہیں ہوئی۔ اپنے مسائل کو پہچاننے کے لئے خود آگاہی بہت ضروری ہے۔اپنی  رویوں پر غور کریں اور بیماریوں کی شناخت کرکے خود کو زہنی بیمار تسلیم کرلیں اور اپنا علاج شروع کریں ورنہ ہم سب کا انجام یہی ہوگا تنہائی کی مار۔اللہ نہ کرے کے ہم بھی کسی روز ان جنگوں میں ہار جائیں جن کا شور صرف ہمارے دل میں ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *