وخان کی خبریں
داد بیداد
ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
وَخان کا نام دو الفاظ کا مر کب ہے ووخ وہاں بسنے والے لوگوں کا نام ہے اور آن کھوار زبان میں درے کو کہتے ہیں۔ یہ درہ اشقومن گلگت اور بروغیل چترال سے ملحق ہے اس وجہ سے وخان میں کوئی ناخو شگوار واقعہ ہوجائے تو نقل مکانی کرنے والے چترال یا گلگت کا رخ کر تے ہیں۔
وَخان کا نام دو الفاظ کا مر کب ہے ووخ وہاں بسنے والے لوگوں کا نام ہے اور آن کھوار زبان میں درے کو کہتے ہیں۔ یہ درہ اشقومن گلگت اور بروغیل چترال سے ملحق ہے اس وجہ سے وخان میں کوئی ناخو شگوار واقعہ ہوجائے تو نقل مکانی کرنے والے چترال یا گلگت کا رخ کر تے ہیں۔
تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں ہیں وخان کی تنگ پٹی افغانستان کا السوالی (ضلع) ہے اس کی لمبائی 250کلو میٹر اور چوڑائی مغربی جا نب 15سے 22کلو میٹر ہے جبکہ مشرقی جانب وسیع ہوکر 75کلو میٹر بن جاتی ہے۔ مغرب کے تنگ حصے میں تاجکستان اور بدخشان کو راستے جاتے ہیں، مشرق کے وسیع حصے میں پا میر اور چینی صوبہ سنکیانگ کو جانے والے راستے ملتے ہیں۔ وخان کی آبادی 27ہزار نفوس پر مشتمل ہے یہ آبادی تاریخ میں پر امن اور مہذب ہونے کے لئے مشہور ہے۔ دو افغان دانشور وں نے وخان پر کتابیں لکھی ہیں برہان الدین کو شکاکی اور نظیف محب شہرانی کی تصانیف کو اس موضوع پر ابتدائی ماخذ کا درجہ حاصل ہے۔ 1873ء سے 1892ء تک وخان کی پٹی کو روس اور برطانوی ہند کے درمیان غیر جانبدار علاقہ بفرزون بنایا گیا تھا۔ 1892ء میں امیر عبد الرحمن خان نے اس کو دوبارہ اپنی عملداری میں شامل کیا۔ 1982ء میں پامیر اور وخان سے ہجر ت کرنے والوں میں پامیر کے کر غیز لیڈر حا جی رحمن قل کو 1200مہاجرین کے ہمراہ تر کیہ کی حکومت نے مستقل آبادکاری کا عندیہ دے کر انقرہ بلا لیا باقی مہاجرین تا جکستان، گلگت اور چترال میں بسائے گئے۔ کچھ لوگوں نے فیض اباد اور کابل میں پناہ لے لی۔
قیا م امن کے بعد قریبی علا قوں میں پنا ہ لینے والے مہاجرین واپس اپنے گھروں میں گئے حا جی رحمن قل اپنے قبیلے کے ساتھ تر کیہ میں آباد ہوا ، وخان اور پا میر سطح سمندر سے 14000تا 16000فٹ کی بلندی پر واقع ہیں ، 14000فٹ کی بلندی سے نیچے آلو اور جوکی فصل ہو تی ہے اس سے اوپر جائیں تو فصل کوئی نہیں ہو تی ، پا میر کے علا وہ وخان میں چلکند سے اوپر مشرق اور شما ل مشرق کی طرف بو زائی گُمبز اور سوختہ رباط تک سارا وسیع علا قہ کا شت کاری کے قابل نہیں اس لئے لو گ مال مو یشی پا ل کر گذارہ کر تے ہیں اور انا ج قریبی علا قوں سے خرید کر لا تے ہیں کر غیز آبادی حنفی مسلک سے تعلق رکھتی ہے وخی آبادی شیعہ اما می اسمٰعیلی مسلک کو مانتے ہیں اور ہز ہائی نس پرنس کریم آغا خان کے پیرو کار ہیں وخان کی جوخبریں حا لیہ دنوں میں میڈیا پر آرہی ہیں ان کا تعلق حقیقت سے زیا دہ وہم اور غلط فہمی سے ہے ایک طبقہ کہتا ہے کہ وخان کو الگ ریاست کا درجہ دیا جا رہا ہے دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ وخا ن کو پا کستان میں شامل کیا جا رہا ہے۔ دونوں خبروں کا زمینی حقا ئق سے کوئی تعلق نہیں اس وقت افغانستان کی حکومت نے عوامی جمہوریہ چین ، تاجکستان اور بھارت کے ساتھ دوستی اور تعاون کے کئی معا ہدے کئے ہیں۔
ان معاہدوں کے مطابق چین کی حکومت دریائے آمو سے بڑی نہر لانے کے لئے کا م کر رہی ہے زمینی سڑک تاشقر غن سے افغانستان لائی گئی ہے سڑک کے ساتھ ریلوے پٹڑی بھی بچھائی جا رہی ہے۔ افغانستان کے اندر بجلی کے منصوبوں پر بھی کام ہو رہا ہے۔ تر قیاتی منصوبوں میں افغانستان کی امارت اسلامی کو چین، تا جکستان اور بھا رت کا بھر پور تعاون حاصل ہے۔ ہو سکتا ہے امریکہ کو یہ تعاون پسند نہ ہو، ہو سکتا ہے امریکہ ایک بار پھر چاہتا ہوکہ ایک بار پھر پاکستان کا کندھا استعمال کر کے افغانستان میں نئی جنگ شروع کرے لیکن یہ بھی زمینی حقیقت ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستان کسی نئی جنگ کے لئے امریکہ کا آلہ کار نہیں بنے گا۔ جو لوگ ہزہائی نس پرنس کریم آغا خان سے اس قسم کی امید رکھتے ہیں وہ بھی غلطی پر ہیں ہز ہائی نس کے خاندان کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ کبھی کسی جنگ میں کسی فریق کی مدد کی ہو موجو دہ حالات میں ان سے اعلا نیہ جنگ میں مدد کی توقع کرنا بعید از قیا س ہے۔
اس وقت سفارت کاری کے محاذ پر پا کستان اور چین کے مفادات میں یکسا نیت ہے ، عوامی جمہوریہ چین کا جو مفاد ہے وہی پا کستان کے مفاد میں ہے، چین کا مفاد وخان کی پٹی کو میدان جنگ بنانے میں نہیں ، نیز یہ بھی حقیقت ہے کہ پا کستان نے ما ضی میں امریکہ کو افغا نستان کی جنگ میں اپنا کندھا پیش کر کے بڑا نقصان اٹھا یا ہے اب اس نا کام تجربے کو دہرا یا نہیں جائے گا، تاجکستان اور پا کستان کے درمیان بجلی کی تر سیل کا معا ہدہ ہو چکا ہے اس پر عملدر آمد التواء میں ہے ، التواء کی وجو ہا ت پر قابو پا نے کے بعد ٹرانسمیشن لائن افغان حکومت کے تعاون سے بچھا ئی جا ئیگی بھارت ضرور چاہے گا کہ پا کستان کو کسی نئی جنگ کی بھٹی میں جھونک دے تاکہ اس کو پا کستان پر ایک اور وار کرنے کا مو قع مل سکے مگر پا کستان کی قیا دت ایسی کسی بھی طالع آزمائی میں خود کو نہیں پھنسائے گی مومن ایک سوراخ سے دوبار ڈسا نہیں جا تا اس لئے وخان کے بارے میں ساری افواہیں غلط ہیں۔