گماں، آستین اور احتساب ذات
گماں، آستین اور احتساب ذات
شمس تاجک
رشتوں کو گماں و خیال کے آستین میں چھپے ہوئے جانوروں کی بھینٹ چڑھانے سے قبل کیوں نہ ایک دفعہ پوری ایمانداری سے ذاتی رویوں اور تصورات کا اتنی ہی باریکی سے جائزہ لیا جائے جتنی گہرائی سے ہم ”گماں“ کے اینٹوں سے بنی ہوئی عمارت کا لیتے ہیں۔ کیا پتہ اندر سے بہتری ہی نکل آئے۔یاد رہے اپنی غلطیوں کے نقشے سامنے رکھ کر تجزیہ کرنے کے بعد کئے گئے فیصلے نہ صرف ذات کے لئے بلکہ معاشرے کے حق میں بھی تریاق کا درجہ رکھتی ہیں۔ اب یہ الگ کہانی، ہمیں کبھی سکھایا ہی نہیں گیا کہ احتساب ذات کے نام سے بھی کچھ کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں گر سکھایا گیا ہے تو صرف یہ کہ سامنے والا کتنا مکار، بے حس، لالچی اور نمک حرام ہے۔ سامنے والا، ضروری نہیں کہ آپ کا دشمن ہو،دوست بھی ہوسکتا ہے۔ پڑوسی، کولیگ،محلے کا دکاندار، موچی،ٹیکسی ڈرائیور یہاں تک کہ ملک کا وزیر اعظم بھی۔ کیا یہ سب مکار ہیں؟ پھر صحیح کون ہے؟ ویسے اتنے سارے مکاروں کے بیچ آپ صحیح کیسے ہوسکتے ہیں؟
معاشرے کی ناکامی میں وہ معاشرتی تربیت بھی اہم ہے جو اب گھر گھر، نسل در نسل بلکہ نس نس میں تربیت کی صورت شامل ہوگیا ہے۔ مال و زر سے نفرت۔اچھی زندگی سے نفرت، کامیاب لوگوں سے نفرت، اپنی کسوٹی سے باہر کی ہر کامیابی سے نفرت۔اس طرز تربیت اور طرز معاشرت نے ہمیں زندہ معاشروں کے اس آخری صف میں کھڑا کردیا ہے جہاں ہمارے حصے میں صرف بھیک ہی رہ جاتی ہے۔ حیرت انگیز رویہ یہی ہے کہ ہم بطور معاشرہ بھیک کو حق سمجھنے لگے ہیں، مہذب معاشروں میں ہمارے لیڈرز جب ادھار لینے میں کامیاب ہوجائیں تو ملک میں شادیانے بجائے جاتے ہیں۔ چاہے اس کے لئے کچھ بھی گروی رکھنا پڑے۔ کوئی تو ہو جو اس رویے کو برا کہے، اس سے نکلنے کے لئے کوئی تو تدبیر ہو۔کوئی نہیں، کم از کم ہمارے ملک میں کوئی نہیں۔ہم ہر چیز کی کمیابی کو کامیابی سمجھتے ہیں۔ بھوکے پیٹ سونے کو اعزاز۔ ایسے میں قدرت بھی کیونکر بدلے ہماری زندگی۔
جہاں تک کامیابی کا تعلق ہے،تو کامیابی ہر کسی کے پیمانے میں الگ الگ مقدار رکھتا ہے۔ضروری نہیں کہ آپ کا پیمانہ اور میرا ترازو ایک جیسے تولیں۔ سوچنے والی بات پھر وہی ہے کہجسے آپ نے کامیابی کا پیمانہ سمجھ لیا ہے؟ضد ہے کہ اسی پیمانے کو دوسرے بھی تسلیم کریں۔یہ ہمیشہ سے نقصان کا ہی سبب رہا۔ یہ ممکن کیوں نہیں ہے کہ رائے کا احترام کرکے دیکھا جائے۔ رائے کو رائے تسلیم کرکے دیکھ لیا جائے۔ صاحب رائے کو بھی ایک دفعہ انسان سمجھ کر دیکھا جائے۔ یہ تصور کرنے میں کیا حرج ہے کہ سامنے بیٹھا شخص سالم انسان ہے۔ دماغ اگر میرے پاس آدھا کلو کا ہے، سامنے بیٹھے انسان کے پاس ایک پاؤ تو ہوسکتا ہے۔ پیدا ہونے سے قبل اس نے بھی خالق سے جنگ نہیں لڑی ہوگی۔ نہ ہی وہ کسی باپ کا نا خلف بیٹا ہے کہ اسے جائیداد سے عاق کرنے کا آپشن موجود رہا ہو۔یہ سب کچھ حاصل کرنے میں جتنا میں بے اختیار ہوں اتنا ہی وہ شخص بھی ہے۔ پھر طنز کیا، بڑائی کا تصور کہاں سے آگیا؟اپنی بلندی اور اس کی کم ہمتی یا کم عقل ہونے کا سوال کہاں سے پیدا ہوا۔
معاشرے کی عمومی بگاڑ کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ ہم رائے کا احترام نہیں کرتے، کسی کی رائے سننے کو روادار تک نہیں، کسی کو اپنے لیول کا سمجھنے کو تیار نہیں۔معاشرے میں کسی بہتری کی گنجائش پیدا کرنے کی اپنی سطح پر ہم میں کوئی بھی کسی بھی کوشش کا حصہ بننے کو تیار ہی نہیں۔آخر کیوں؟ کیا ہم انسانیت کی معراج کو پہنچ چکے ہیں؟ یا ابھی معاشرے میں بہتری کی مزید گنجائش موجود ہے؟ اور کیا ہم اپنی ”آستین“ جھاڑ سکتے ہیں۔ بھلے کسی چوک پر کھڑے ہو کر نہ جھاڑیں، گاؤں کے کسی چوراہے پر بھی نہیں، گھر پر بھی نہیں۔ من کی ایک الگ نگری ہے۔ جھاڑپونچ جتنی من کی نگری میں ہوگی۔ دلی سکون لازمی شرط ہے۔ صرف اپنا دل نہیں، معاشرے کا دل بھی ایسے رویوں سے سکون پاتا ہے۔
کہنے کو چترال کے حفیظ الامین بھی کہتے ہیں۔ مگر کیا کمال کہتے ہیں …………
آوا چھوتیو سوم چھوتی، زرہ و برابر
نہ ما کیا فکر خدائی، آوا مستانہ غیردوم