فلورنس کی سیر
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
اٹلی میں ایک کہاوت ہے جس نے فلورنس نہیں دیکھا اُس نے اٹلی نہیں دیکھا میں اٹلی دیکھنا چاہتا ہوں اس لئے فلورنس آیا ہوا ہوں اور اس مقولے کی صداقت کاقائل ہورہا ہوں فلورنس کو بجاطورپر چودھویں صدی میں یورپ کا ادبی، علمی اور معاشی مرکز کہا جاتا تھا،فلورنس کی منڈی سے فلورین نام کاسکہ جاری ہوا تھا جوخالص سونے کاسکہ تھا۔ مشرق سے مغرب تک اس کی حیثیت آج کل کے ڈالر کی طرح مسلم تھی فلورنس کی مارکیٹ سے اس سکے کی مدد سے بینکنگ کا آغاز ہوا رفتہ رفتہ سکے کی جگہ کاغذ کانوٹ جاری ہوا جس کی ابتدا فلورنس سے ہوئی کاغذ کایہ نوٹ آج کی کرنسی کے لئے نقطہ آغاز ثابت ہوا۔
پندرھویں صدی میں یورپ کی نشاۃ ثانیہ کی تحریک ٹس کنی ریجن سے اُٹھی جہاں فلورنس کا شہرآباد ہے۔ اٹلی کی زبان میں اس شہر کا نام فیرنیزے ہے۔ کسی بھی سائن بورڈ پر فلورنس کانام نظر نہیں آتا۔ آرنو کادریا شہر کے وسط میں بہتا ہے شاہی قلعے کا ایک حصہ دریا کے دائیں طرف دوسرا حصہ بائیں طرف واقع ہے ایک بڑا بادشاہی پل دونوں حصوں کو خفیہ راستے کے ذریعے ملاتا ہے۔ جنگ عظیم دوم میں دریا کے ایک طرف نازی فوج تھی دوسری طرف اتحادی افواج کامورچہ تھا۔ نازیوں نے شہر کا بڑا حصہ مسلسل گولہ باری سے تباہ کیا تھا۔ یونیورسٹی آف فلورنس اس تباہ شدہ حصے میں واقع ہے۔
ہمارے دوست اطالوی دانشور ڈاکٹر اغیستو کاکوپاردواور ان کے بھائی ڈاکٹر البرٹوکاکوپاردواسی یونیورسٹی کے انتھروپولوجیڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ہیں۔ دونوں بھائیوں نے 1973سے اب تک51سالوں میں ہندوکش اور چترال پرمتعدد تحقیقی مقالات اور کتابیں شاءع کیں جواطالوی اور انگریزی زبانوں میں ہیں۔ کالاش تہذیب کے مطالعے میں ان کوسند مانا جاتا ہے۔ مشرقی تہذیب کے دلدادہ ہیں۔ ان کی رہنمائی میں فلورنس کی سیرکالطف دوبالاہوا۔ یونیورسٹی میں تعلیمی سال کا اختتام ہواہے فروری تک کلاسیں نہیں ہیں اوفیزی فلورنس کاسب سے بڑا عجائب گھر ہے اور یہ فلورنس کے پہلے سکوائر پرواقع ہے۔ قدیم شہرکے گرد پشاور کی طرح بڑی دیوارتھی اُس دیوار کے6دروازوں میں سے دودروازے باقی بچے ہیں اور عجائب گھر آتے جاتے ان دروازوں سے گذرنا پڑتا ہے۔ دیواردریا کی طرف منہدم ہوچکی ہے،عجائب گھرکے قریب اسی سکوائرکی دوسری طرف چرچ کی عالیشان عمارت ہے جس کاگنبد شہر کے ہرکونے سے نظر آتاہے۔
اس چرچ کا نام کیھتیڈرل آف سانتا ماریہ ہے۔ چرچ کے احاطے میں مشہور مصنف اور سائنسدان گیلی لایواورمشہور آرٹسٹ میکل انجیلیو کی قبریں ہیں۔ عجائب گھر اورچرچ کے اندر نشاۃ ثانیہ کے دور پندرھویں اورسولہویں صدی عیسوی کی آرٹ کے نادر اور نایاب نمونے سجائے گئے ہیں کینوس پر جوآرٹ ہے اس کو آرٹسٹوں نے سنگ مرمر کی سلوں پرتراش کرعجوبہ تخلیق کیا ہے۔ مثل مشہور ہے لیونارڈونے ایک بادشاہ کا مجسمہ تیار کیاتواس کو دیکھ کرمیکل انجیلیونے کہا تھا کہ نالائق نے سنگ مرمر کی اچھی بھلی تختی کوضائع کیا۔ اگر وہ پاکستان آکردیواروں اور فرشوں میں لگے سنگ مرمر کودیکھتا توشاید روپڑتا کہ یہ لوگ مجسمے کیوں نہیں بناتے! فلورنس میں جہاں بھی قدیم راجوں اورمہاراجوں کے محلات ہیں وہ بھی سنگ مرمر کے خوب صورت مجسموں سے مزین کئے گئے ہیں۔ بازاروں میں گھومتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ میں واقعی آرٹسٹوں کے شہر میں آگیا ہوں۔ اگر یورپ کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز یہاں سے ہوا تواچھنبے کی کوئی بات نہیں فلورنس طلسمات کاشہر ہے ایک بے مایہ کایہ کالم اس کی وسعتوں کو اپنے دامن میں نہیں سمیٹ سکتا بقول شاعروسعت کچھ چاہیئے میرے بیان کے لئے۔