گھر ۔۔۔ جائے سکونت
گھر کو جتنے نام اور معنی دئے جائیں میرے خیال میں سب سے خوبصورت معنی جائے سکونت کے ہیں۔کیونکہ گھر کے حوالے سے ہمارے احساسات بلکل عام اور ایک جیسے ہوتے ہیں۔مثلا آپ گھر سے باہر کتنے ہی پر آسائش مقام پر ہوں’ایک مسلسل بے قراری اور بے چینی کی کیفیت میں مبتلا رہیں گے جب تک کے واپس گھر نہیں آتے۔
گھر میں قدم رکھتے ہی آپکو ذہنی طور پر سکون اور طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔کیونکہ یہ آپکا گھر ہی ہے جہاں آپ اپنی مرضی سے اپنی طبیعت اور مزاج کے مطابق مکمل استحقاق کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔بیک وقت آزادی اور تحفظ کا احساس گھر کی چار دیواری میں ہی ہوتا ہے۔گھروں کی تعمیر یونہی بیٹھے بٹھائے سال دو سال میں نہیں ہوتی۔بلکہ ایک گھر کسی کی سالوں سے دیکھے گئے خوابوں کی تعبیر ہوتی ہے۔سالوں کی محنت لگن خواہشات اور قربانیوں سے بنتے ہیں گھر۔غلام عباس کا “کتبہ ” تو آپ نے پڑھا ہوگا’کیسے اپنا گھر بنانے کی چاہ میں اپنے نام کی تختی )کتبہ( بنا لیتا ہے۔لیکن اپنا گھر بنانا نصیب نہیں ہوتا اس خواہش کو لیکر دنیا سے کوچ کر جاتا ہے اور وہ کتبہ آخر کار اس کے قبر کی زینت بن جاتا ہے۔
یہ کہانی ہر تیسرے شخص کی ہے کہ اپنے گھر کا خواب تو ہر شخص دیکھتا ہے مگر ہر شخص کو یہ نعمت حاصل نہیں ہوتی۔لوگ کہتے ہیں کہ بے گھری بہت بڑا دکھ ہے مگر میں سمجھتی ہوں کہ گھر جیسی نعمت کے ہوتے ہوئے اگر گھر کے سکون کو ترسے تو اس بڑا دکھ اور عذاب شاید کوئی نہیں۔ اور المیہ یہی ہےکہ آجکل بے گھری کے دکھ سے تو ہر تیسرا شخص گزر رہا ہے لیکن گھر کے سکون کو ہر دوسرا شخص ترس رہا ہے۔کہا جاتا ہے کہ جب اپنا ہی گھر ذہنی تکلیف اور بے سکونی کا سبب بنے تو آدمی کو توبہ کرنا چاہئے۔اس سے اتنا واضح ہو جاتا ہے کہ گھر کو آباد کرنا اور یا برباد کر نا دونوں میں کسی باہر والے کا اتنا ہاتھ نہیں ہوتا جتنا آپکا اپنا کردار ہوتا ہے۔گھر بنانا تو پھر آسان ہے مگر بسانا بہت مشکل۔گھروں کو آباد کرنے کے لیے سامان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نہ ہی گھر کی بنیاد اینٹ اور سریا ہوتی ہیں کیونکہ گھر کا سکون تو ان کو بھی میسر ہے جو جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔اور بعض اوقات محلات میں بسنے والے سکون کو ترستے ہیں۔بات صرف تسلیم کرنے کی ہے ایک دوسرے کی وجود کو۔جب مرد گھر بسانے کی خاطر شادی کرتا ہے تو اس مرد اور عورت دونوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ مرد اور عورت گاڑی کے دو پہیے ہیں اگر ایک چھوٹی سی کار میں ایک ٹائر ٹریکٹر کا لگایا جائے اور دوسرا ٹائر سائیکل کا ہو تو آپ جتنی مرضی کوشش کر لیں ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گاڑی نہیں چلے گی۔
کھڑے کھڑے زنگ آلود ہو جائے گی مگر چلے گی نہیں۔کیونکہ بے شک اللہ نے مرد کو عورت پر فضیلت دی ہے مگر گھر کے نظام کو چلانے کے لئے ضروری ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلیں۔ایک دوسرے کو عزت اور اہمیت دیں ایک دوسرے کا احترام کریں۔گھریلو معاملات پر دونوں فریقین ایک دوسرے کو رائے دہی کا موقع دیں اسے سنیں سمجھیں اور اہمیت دیں۔تاکہ گھر میں سکون خوشی اور اطمینان کا ماحول ہو۔کیونکہ گھر کے ماحول کی بنیاد میاں بیوی نے اپنے اخلاق سے رکھنا ہے اس گھر کی بنیاد جس گھر میں اسکی نسل پلنی ہے۔تو اس بنیاد کو بہت سوچ سمجھ کر رکھیں۔تاکہ بڑھاپے میں اولاد کو عاق کرنے کی نوبت نہ آئے۔کہیں سنا تھا کہ جس گھر میں عورت خوش نہ ہو وہ گھر کھبی آباد نہیں ہوتا۔میں اس بات سے اتنا اتفاق کرتی ہوں کہ بہت سے مرد خود پسندی کا شکار ہوکر بیوی کو اپنے پاوں کی جوتی سمجھتے ہیں۔دنیا جہاں کی خامیاں اپنی بیوی میں دیکھتے ہیں اور خوبیاں اکثر اپنی رشتہ دار بہنوں بھابھیوں میں دیکھتے ہیں یوں ہر وقت وہ اپنی اولاد کے سامنے انکی ماں کا موازنہ دوسری عورتوں سے کرتے رہتے ہیں۔اسطرح بچے بھی اپنی والدین کا موازنہ دوسروں سے کرتے رہتے ہیں یوں کچھ بچے باپ سے دور ہوجاتے ہیں کہیں ماں سے۔
بچوں کی شخصیت تو تباہ ہوتی ہی ہے ساتھ گھر کا ماحول بھی ختم ہوجاتا ہے۔ایسے والد کی زیر تربیت پلنے والی بیٹیاں آگے جاکر خود کو عقل کل سمجھ کر شوہر پر غالب آنے کے چکر میں بد اخلاقی کی بنیاد ڈالتی رہتی ہیں یوں گھروں کا نظام نسل در نسل بگڑتا جاتا ہے۔کسی کہانی میں مرد کا کردار غلط ہوتا ہے کسی میں عورت کا۔کیونکہ احساس برتری کا شکار کوئی بھی ہو وہ اپنے ساتھی کو احساس کمتری میں مبتلا کرکے چھوڑتا ہے۔ سو گھر کے سربراہان احساس کمتری اور برتری سے نکل کر اگر برابری کی راہ پر چلیں تو وہ چاہیں تو گھر کو جنت کا نمونہ بھی بنا سکتے ہیں اور چاہیں تو اپنی غرور جہالت اور کم ظرفی کے ہاتھوں مجبور ہو کر گھر کو جہنم کا نام البدل بھی بنا سکتے ہیں ۔فیصلہ آپ کا۔
گل عدن