Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

سرحدی گاوں کا سکول

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

داد بیداد

 

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
اخباری رپورٹروں کا ایک وفد پاک افغان سرحد پر واقع گاوں کا دورہ کر رہا ہے۔ گاوں کے لوگ اس بات پر کافی رنجیدہ ہیں کہ حکومت نے ان کے سرکاری سکول کو کسی سیٹھ ساہو کار کے ہا تھ فروخت کرنے کی منظوری دی ہے۔ گاوں والوں کا پہلا غم یہ ہے کہ سرحد پاردشمن کو اس سکول پر پاکستان کا قومی پرچم نظر آتا ہے تو وہ غصے سے لال پیلے ہوکر اپنے دانت چبانے لگتا ہے اس سکول کو ہم حکومت پاکستان کی نشانی سمجھ کر اپنے ملک اور اپنی حکومت پر فخر کرتے تھے یہ بھی نہ رہا تو ہمارے پاس کیارہ جا ئے گا۔

صحافیوں نے کہا سیٹھ سا ہوکار بچوں سے بھاری فیس نہیں لےگا۔ بچوں اور بچیوں کی فیس والدین پر بوجھ نہیں ہو گی، بچوں اور بچیوں کو پبلک سکولوں کی طرح معیاری تعلیم ملے گی، تعلیم کی خا طر والدین اپنے گھر بار، گائے، بیل اور گھوڑے، گدھے بیج کر فیس برداشت کر لینگے مگر یہ بات لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئی، جس کی سمجھ میں آگئی اُس نے پسند نہیں کیا۔

ایک ستم ظریف نے کہا غریبوں کے ساتھ کھلا مذاق ہے ہم نے کہا فکر کی کوئی بات نہیں بعض اوقات غلط لوگوں کے اکسانے پر حکومت غلط فیصلہ کرتی ہے اور پھر اپنا فیصلہ واپس لیتی ہے ابھی حال ہی میں حکومت نے سستے اشیائے صرف بیجنے والے یوٹیلیٹی سٹوروں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا لیکن عوام کی طرف سے حقیقت سامنے آنے کے بعد حکومت نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔ سردست میں ان حلقوں کو تلا ش کرنا چاہئیے جو حکو متوں کو اوٹ پٹانگ قسم کے مشورے دیتے ہیں اور پیچھے کسی کونے کھدرے میں جاکر چھپ جاتے ہیں۔ ایسے فیصلوں کے منفی نتا ءج حکومتیں اور بر سر اقتدار جماعتیں بھگت لیتی ہیں۔

یہ کسی سرحدی گاوں تک محدود بات نہیں پشاور کے مضافات میں پشتخرہ اور بڈھ بیر تک چکر لگا نے سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں پاکستان کا سبز ہلالی قومی پرچم لہراتا ہے وہ سرکاری سکول ہی ہے یہ وہ عمارت ہے جس کے دروازے سے پاکستان اور قومی پرچم سے محبت کرنے والوں کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔ اندرون شہر آجا ئیں تو ڈھکی سے لیکر گنج تک پا کستان کا پیارا پر چم سرکاری سکولوں پر ہی نظر آتا ہے شا ید کوئی ہے جس کو یہ پر چم اور اس کا نظا رہ اچھا نہیں لگتا ایک ہی جست میں سرکاری سکول سیٹھ ساہو کار کے حوالے کرکے سارے ’’پرچموں میں عظیم پرچم ‘‘ سے جان چھڑانا چاہتا ہے۔

مشورہ شاید مفت ہے اس لئے سرکار کو پسند آیا ہوگا ویسے خدا لگتی کہئیے تو سکولو ں کی نجکاری ایک اچھوتی تجویز ہے اس تجویز کا کوئی سر پیر نہیں ، حکومت اپنے کاروباری اداروں کی نجکاری اُس وقت کر تی ہے جب یہ ادارے 30یا 40سالوں سے مسلسل خسارے میں جا رہے متبا دل پرو گرام نہ ہو، سکول، ڈاک خانہ اور ہسپتال کاروباری ادارے نہیں ہیں ان کا شمار لا زمی خد مات میں ہو تا ہے اپنے شہری کو شنا ختی کارڈ دینے کے ساتھ ہی ریا ست کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ مفت تعلیم کی سہو لت فراہم کرے شہری کے بچوں کو گھر کی دہلیز پر سرکاری سکول سے مفت تعلیم حا صل کرنے کے مواقع حاصل ہوں، یہ بنیا دی ضرویات میں سے ایک اہم ضرورت ہے 2024 میں ترقی یافتہ دنیا کو چھوڑ کر ہمارے پڑو س میں واقع ہماری طرح پسماندہ ، غریب اور ترقی پذیراقوام نے بھی شرح خواندگی میں ہم پر سبقت حا صل کی ہے یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ عوامی جمہوریہ چین میں شرح خواندگی 99فیصد، بھارت میں 77فیصد، ازبکستان میں 100فیصد ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ خا نہ جنگی سے متا ثر ملک سری لنکا میں بھی شرح خواندگی 88فیصد ہے جبکہ وطن عزیز پاکستان میں یہ شرح بمشکل 62فیصد کی شرح تک آگئی ہے ہمارے بڑے شہروں کے ساتھ چھوٹے قصبوں اور دیہات کے سرکاری سکول شرح خواندگی میں بنیا دی کر دار ادا کر تے ہیں یہ ہمارے سرکاری سکول ہیں جو معا شرے کے غریب اور نا دار طبقے کے بچوں اور بچیوں کو مفت تعلیم دیتے ہیں اگر یہ سکول کسی سیٹھ ساہو کار نے خرید لئے تو مفت تعلیم کا یہ نظا م ختم ہو جا ئے گا۔

پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم صرف امیر اور دولت مند طبقہ برداشت کر سکتا ہے غریب طبقہ برداشت نہیں کر سکتا ، اقتصادی سروے اور مر دم شماری کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطا بق پا کستان میں غر بت کی شرح سال بہ سال بڑھ رہی ہے 1970 میں 30%آبادی غر بت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی تھی 2024ء میں یہ شرح 47فیصد ہو گئی ہے وجہ یہ بتا ئی جا تی ہے کہ مڈل کلا س یا درمیانہ طبقے کا سفید پوش حلقہ غر بت کی لکیر کو کر اس کرتا جا رہا ہے اور کسی بھی ملک کے لئے یہ مشکل صورت حال ہوتی ہے۔ ان حالات میں اُمید ہے حکومت اپنے فیصلے پر ضرور نظرثانی کرے گی۔ کم از کم سر حدی دیہات کے عوام کو ما یو س نہیں کریگی۔

You might also like

Leave a comment

error: Content is protected!!