Chitral Today
Latest Updates and Breaking News. Editor: Zar Alam Khan.

بحث و تکرار

داد بیداد

ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

بحث و تکرار کے عنوان پر پطرس بخاری کا انشائیہ اپنی مثال آپ ہے اس کا کوئی موازنہ یا مقابلہ نہیں ہو سکتا ہمارے ہاں الیکٹرانک میڈیا میں بڑے لوگوں کو بلا کر جو بحث و تکرار دکھایا اور سنایا جاتا ہے اس کا اپنا مزہ ہے اس بحث و تکرار میں ہم نے گھونسے اور تھپڑ بھی چلاتے ہوئے دیکھے، بوٹ میزوں پر سجا تے اور قرآن پر قسم اٹھا تے بھی دیکھے دلچسپ صورت حال اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی بڑا آدمی اپنا مو قف بدل کر معافی مانگنے لگتا ہے یا کوئی بڑا آدمی مجلس سے اُٹھ کر مجلس پر دو حرف بھیجتے ہوئے باہر نکل جاتا ہے بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ یہ بڑے لوگ نہیں کسی کچی دیوار کے سا یے میں مٹی کے گھر وندوں سے کھیلتے ہوئے معصوم بچے ہیں ابھی غصہ ہوگئے تھوڑی دیر میں واپس آکر اپنی گھروندوں سے پہلے کی طرح کھیلنے لگینگے اور بسا اوقات ایسا ہی ہوتا ہے

بات وطن کی ہو، قوم کی ہو، مذہب کی ہو، سیاست کی ہو، معیشت کی، آمریت کی ہو یا جمہوریت کی ہوہر بات کے بیسیوں پہلو اور بیسیوں رُخ ہوسکتے ہیں ہمارے بڑوں کو کسی بھی پہلو اور کسی رخ پر بات کر تے ہوئے دیکھنا خدا دشمن کو بھی نصیب کرے پتہ نہیں کس نے ہمارے بڑوں کے دل میں یہ بات ڈال دی ہے کہ اختلاف رائے دشمنی ہے، تمہاری رائے سے جو اختلاف کرتا ہے وہ تمہارا پکا دشمن ہے حالانکہ ہمارے مقابلے میں مغربی دنیا نے ایک مقولے کو اپنا منشور بنایا ہے مقولہ یہ ہے کہ ’’تمہاری رائے سے اختلاف رکھتا ہوں تا ہم تمہاری رائے کے اظہار کا حق دلانے کے لئے اپنی جان بھی لڑا دونگا ‘‘ مغرب میں اظہار رائے کی آزادی کے حدود متعین کئے گئے ہیں اس عنوان پر بھی ایک مشہور مقولہ دہرایا جاتا ہے وہ کہتے ہیں کہ ’’تماہری آزادی وہاں تک ہے جہاں میری ناک شروع ہو تی ہے‘‘ یعنی اظہار رائے کی آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تم میری ذات پر کیچڑ نہیں اچھال سکتے میری شخصیت کو، میری ذادت کو اور میرے کنبے کو زیر بحث نہیں لاسکتے

برطا نیہ کے ایک مشہور وزیر اعظم ونسٹن چرچل گذررے ہیں، ان کا مخالف سیاستدان دار لعوام میں کھڑے ہو کر اُس پر ذاتی حملے کرتا تھا مگر وہ جوا ب نہیں دیتا تھا ایک دن ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ کو ئی جواب کیوں نہیں دیتے چرچل نے کہا ’’شاید میری تربیت اُن سے بہتر ہوئی ہے‘‘ بحث و تکرار میں نفس مضمون پر گرفت اور اپنے نقطہ نظر کی مبا دیات کو سامنے رکھنا ضروری ہے اس کے لئے لٹریچر کا مطا لعہ کرکے تیاری کرنا لازم ہے اگر تیاری نہیں ہوئی تو آدمی بات کہتے ہوئے بھٹک جائیگا

مشہور ڈرامہ نگار، مکا لمہ نگار اور مقرر جار ج برنارڈ شاہ سے پوچھا گیا کہ تمہیں ایک گھنٹہ تقریر کے لئے کتنی تیاری کرنی پڑ تی ہے انہوں نے کہا میں کوئی تیاری نہیں کرتا کیونکہ ایک گھنٹہ کی تقریر میں الم غلم کچھ بھی کہا جا سکتا ہے، البتہ مجھے 5منٹ بولنے کے لئے کہا جائے تو میں 3گھنٹے تیاری کرکے آتا ہوں کیونکہ 5منٹ کی گفتگو میں ہر لفظ کونپا، تلا اور جانچا، پرکھا ہوا ہونا چاہئیے

الیکٹرا نک میڈیا میں جو بحث و تکرار چلتی ہے اس میں ہر ایک کو دو منٹ کا وقت ملتا ہے، اس کے بعد اگلی بات کی باری آتی ہے پھر دو منٹ ملتے ہیں اس طرح ایک گھنٹے کی گپ شپ میں کل ملا کر 10یا 12منٹ ہر ایک کو ملتے ہیں تیاری کے ساتھ آنے والا سنیٹر مشتاق احمد خان کی طرح جم کر بولتا ہے کوئی غیر ضروری لفظ اپنی زبان پر نہیں لاتا جبکہ جس کی تیاری نہیں ہو تی وہ الم غلم بولتا رہتا ہے اُس کی بات کا سر پیر نہیں ہو تا اور یہی چیز سنجیدہ نا ظرین کو الیکٹر انک میڈیا سے بیزار کر دیتی ہے بحث و تکرار کی حدود کا تعین ہونا چاہئیے۔

You might also like

Leave a Reply

error: Content is protected!!