وہ صرف نام کی نہیں بلکہ کام کی بھی گلسمبر تھیں
میری ڈائری کے اوراق سے
تحریر: شمس الحق قمرؔ
گلسمبر کائے سے میری پہلی ملاقات نومبر سن 7719 کی کسی ایک تاریخ کو ہوئی تھی جب میری عمر 10 سال تھی۔ اُس وقت آپ کراچی سے میڈیکل ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد غالباً آغا خان سنٹر بریپ میں اپنی خدمات انجام دے رہی تھیں۔ یہی کوئی 20 سال کی دوشیزہ ہوگی۔ مجھے درست یاد نہیں کہ بریپ سے ریشن جاتے ہوئے یا ریشن سے بریب جاتے ہوئے شام کے وقت دوتھان میں اُن کی گاڑی کوایک خوفناک حادثہ پیش آیا تھا- اُس حادثے میں تین قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا تھا۔ جمعدار محمد عبدل عرف دول ریشن، مکرم شا ہ صاحب ہرچین اور ڈرائیور عطا چوئنج نے زخموں کا تاب نہ لاتے ہوئے داعی اجل کو لبیک کہا تھا۔ اُس حادثے میں گلمسبر کائے معجزانہ طور پر بچ گئی تھیں لیکن حادثے کا یہ قیامت خیز منظر اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود بھی گاڑی میں سوار تمام مسافروں کی جانیں بچانے کی کوشش کرتی رہی ۔ اُن کے پاس ابتدائی طبی امداد کا باکس موجود تھا جو کہ گاڑی گر جانے کے بعد اُنہوں نے اٹھائی تھی اور اپنا پیشہ وارانہ امداد بہم پہنچانا شروع کیا تھا کہ گاؤں کے لوگ بھی جائے حادثہ پر پہنچ گئے۔ زخمیوں کو بونی ہسپتال پہنچایا گیا چونکہ گلسمبر کائے کو کوئی چوٹ نہیں آئی تھی لہذااُنہیں ہمارے گھر واقع ٹیک لشٹ بونی منتقل کیا گیا ۔ اُس وقت اُن کی ہمت اور حوصلہ قابل دید تھا۔
میرے والد صاحب کے استفسار پر اپنے بچ جانے کی وجہ اور زخمیوں کو فوری طبی امداد پہنچانے کے حوالے سے بتاتے ہوئے اُن کی پرنم آنکھیں اُن کے چچا محمد عبد ل کی اپنی اولاد پر جان نچھاور کرنے کی غماز تھیں۔ محمد عبدول عرف دول نے حادثے کی نذر ہونے والی گاڑی سے اپنی بچی کو دھکے سے محفوظ مقام کی طرف پھینکا تھا اور یوں خود کو بچانے کا وقت اُن کے ہاتھ سے گزر گیا تھا۔ اُس دن سے ہمارا اُن کا تعلق چھوٹے بھائی اور بڑی بہن کا تھا۔ اُن کی رحلت سے ٹھیک ایک سال پہلے بونی میں راہ چلتے ہوئے اُن سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو اُنہوں نے میری حالات زندگی پوچھی۔ میری شریک حیات چونکہ اُن کی شاگردوں میں سے ایک ہیں لہذا اُن کا نام لیکر اُن کی خیریت دریافت کی اور میرے ٹوٹے پھوٹے الفاظ پر مبنی اخبارات کو لکھے گیے مضامین کی تعریف کی اور اس خیال کا اظہار کیا کہ ہمارے معاشرے میں بچیوں میں لکھنے کا شوق بہت کم ہے اور اس خلا کو پرُ کرنے کےلیے ہمیں خواتیں کے لیے کوئی ایسا رسالہ منظر عام پر لانا وقت کی اہم ضرورت ہے کہ جس کے ذریعے ہماری بچیاں اظہار رائے کر سکیں۔ ہم نے ہامی بھر لی اور آج کو کل اور کل کو آج پر چھوڑتے گیے اور پھر ۔۔۔۔دوبارہ ملنا محال ہوا جسکا قلق مجھے زندگی بھر رہیگا۔
آج محترمہ کی وفات کا دن ہے تو مجھے اُن کی سوچ نے جھنجھوڑا اور میں قلم دوات لیکر اُن کو یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور اپنے بہن بھائیوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ایک عظیم معمار قوم بننے کے لیے کتنی مشقت کرنی ہوتی ہے اور کتنی صعوبتیں اُٹھانی پڑتی ہیں۔ آپ ذرا آنکھیں موندھ کر چترال کی سن 70 کی دہائی میں چلے جائیں اور تصور کریں کہ جب تعلیم نسواں کو کفر کی کسوٹی پرکھا جا رہا تھا تو بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بچیوں کا مزید تعلیم کےلیے ملک کےانتہائی جنوب کا رخ کرناکتنا بھاری کام ہوگا ؟یہ وہ بچیاں تھیں جو آگے جاکر چترال کی ترقی کی ضامن بنیں۔ ان تاریخ رقم کرنے والی خواتیں میں میڈم گلسمبر بیگم ریشن، میڈم جم شیلی بریپ، میڈم گلستان عزیزریشن اور میڈم لعل زمرد بونی شامل ہیں جنہوں نے سماج کیہر لعن طعن کو برداشت کرتے ہوئے اپنی بے پناہ دور اندیشی سے چترال میں تعلیم نسواں کو عام کرنے کی نہ صرف کوششیں جاری رکھیں بلکہ واپس آکر صحت کے میدان میں قوم کےلئے شاندار خدمات بھی انجام دیں۔ گلسمبر کائے کی زندگی کے حوالے سے ایک گفتگو میں ریشن کی گلستان کائے نے کہا کہ یہ غالباً 1963 کا دور تھا جب یہ تمام بچیاں سکولوں میں ساتویں تک پہنچی تھیں کہ اُنہیں محمڈن گرز اکیڈمی کراچی بھیجا گیا یہاں سے انہوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد نرسنگ کی ٹریننگ لی اور چترال میں آج بھی اپنی بے لوث خدمات کی وجہ سے انتہائی احترام اور عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔
گلسمبر کائے نے 80 کی دہائی میں شعبہ تعلیم میں شمولیت اختیار کی یہ وہ زمانہ تھا جب طب کے میدان میں ڈاکٹر سلمٰی جیسی ہستی نے صحت کے میدان میں اپنی خدمات سر انجام دینا شروع کیا تھا ۔ گلسمبر کائے نے کمیشن پاس کرکے پہلے پہل گورنمنٹ گرلز ہائی سکول بونی میں ہیڈ مسٹرس تعنیات ہوئیں ۔ ہم نے آپ کی پیشہ وارانہ زندگی کے حوالے سے آپ کی شاگرد وں سے رابطہ کیا اور ہمیں یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ آپ کی شخصیت کے کئی ایک پہلو ایسے تھے جو آپ کو تعلیم کے میدان میں باقی تمام پیشہ وروں سے ممتاز کرتے ہیں۔ آپ بیک وقت رحمدل ماں، راز دان دوست، بہترین مشیر اور صحیح معنوں میں پیشہ ور ٹیچر تھیں۔ آپ کی شاگرد آج بھی بے حد احترام سے آپ کا نام لیتی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ جب کائے (مرحومہ) سکول میں ہیڈ مسٹرس تھیں تو اُنہیں دو باتوں سے سخت چڑ تھی، شاگردوں کی کسی غیر ضروری حرکات و سکنات کی خبر سننا اور سکول کے نظم نسق میں جھول دیکھنا جیسے معاملات پر جب آپ کو غصہ آتا تو اتنے ملائم اورساحرانہ انداز سے سمجھاتیں کہ معتوب شرمندگی سے پسینہ پسینہ ہوتا -تعجب خیز بات یہ ہے کہ اُنہوں نے بھولے سے بھی اُونچی آواز سے اپنے غصے کا اظہار زندگی میں کبھی بھی نہیں کیا۔ میں نے اُن کی اعلیٰ ظرفی کی یہ کہانی ایک دو لوگوں سے سن رکھی تھی لیکن آج بہت سوں سے رابطہ کیا اور سبھی نے اس بات کی تائید کی۔
کہتے ہیں کہ لباس کسی انسان کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ آپ کے لباس کے بارے میں آپ کی شاگردوں کی رائے یہ ہے کہ آپ ہمیشہ صاف ستھرے لباس میں ملبوس ہوتی تھیں لیکن ہر لباس سے علاقہ اور تہذیب کا رنگ ضرورنمایاں ہوتا نظر آتا تھا ۔آپ کے حسن اخلاق اور طالبات سے حسن سلوک پر گفتگو کرتے ہوئے آپ کی ایک شاگر د نے ایک واقعے کا ذکر کیا جو درس و تدریس سے منسلک تمام استاتذہ کےلئے مشغل راہ ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ سکول میں ڈریس کوڈ کے مطابق سکول کے صرف صاف اور سادہ کپڑے پہننے کے علاوہ کسی اور بنا و سنگھار کی قطاً اجازت نہیں تھی لیکن ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ میں ابھی ابھی کسی دوسرے سکول سے آئی ہوئی تھی اور ناخنوں پر سرخ رنگ سجا ہوا تھا .۔آج صبح کی اسمبلی میں مس خود صفائی دیکھ رہی تھی۔ مس نے طالبات کی صفوں کا ایک ایک کر کے جائزہ لینا شروع کیا مجھ تک پہنچنے سے پہلے میرے اوسان خطا ہوئے تھےاور میں نے سوچا تھا کہ اب مس میرے ناخن دیکھے گی اور مجھے سامنے لے جاکر بھری محفل میں میری کلاس لے گی لیکن وہ بہت دور اندیش اور سب سے الگ انسان تھی، وہ میرے پاس پہنچی اور محبت بھری تبسم سے دھیمے لہجے میں بولی ( مہ ژان چھوچھی تان ہوستان صفا کوری گیے) یعنی پیاری کل اپنے ہاتھ صاف کرکے آنا ۔مجھے سمجھاتے ہوئے اُن کی آواز اتنی دھیمی تھی کہ میرے آس پاس کھڑی طلبات کو مطلقاً خبر نہ ہوئی کہ مس نے مجھے کیا کہا۔ کہتے ہیں کہ آپ بچوں کو عملی مثالوں سے سمجھایا کرتی تھیں۔ اُن کی طالبات میں سے ایک نے مجھے اپنی ہیڈ مس کی ایک خصوصیت بتائی جو کہ ہزاروں میں سے ایک کی ہو سکتی ہے اور وہی ہزاروں میں سے ایک ٹیچر ہی اصلی ٹیچر ہوتا ہے/ ہوتی ہے وہ یہ کہ مس گلسمبر نے اپنی کلاس کبھی مس نہیں کی ۔حالات جیسے بھی ہوں ، مہمان کوئی بھی آئے اور ایمرجنسی جیسی بھی ہو وقت پر کمرہ جماعت میں حاضر ہونا اُن کی پیشہ وارانہ زندگی کا خاصہ تھا۔ 50 طلبات کے کمرہ جاعت میں اُسی دھیما پن سے بولتی تھیں جو کہ اُن کی شخصیت کا ہمیشہ سے حصہ رہا ہے لیک کمرہ جماعت کو کچھ ایسے ماہرانہ حکمت علمی سے مٹھی میں لے لیتیں کہ جب آپ گفتگوکا آغاز فرماتیں تو سکوت اتنی چھا جاتی کہ آنسو ٹپکنے کی آواز صاف سنائی دیتی۔ آج مس گلسمبر ہمارے درمیاں موجود نہیں لیکن اُن کے افکار، اُن کا لوگوں سے حسن سلوک، اُن کا طالبات سے بہترین اخلاقی رویہ اور اُن کے کام کو کام سمجھ کر نبھانے کی اعلی ٰ تعلیمات ہمارے لیے نشان منزل ہیں۔ اللہ آپ کو اُس دنیا میں بھی خوش رکھے۔
ہم تجھ پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سا لاکھ سہی تو مگر کہاں
مجھے اُمید ہے گلسمبر کائے کے جاننے والے اور آپ کے رفقاء کمنٹ باکس پر گلسمبر کائے کے ساتھ اپنی یادوں کا تذکرہ ضرور فرمائیں گے۔