افراتفری
داد بیداد
ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی
خبروں میں کوئی اچھی خبر نہیں ہو تی اگر ہو تی ہے تو شہ سر خیوں میں نہیں آتی اگر شہ سر خیوں میں آتی ہے تو ٹیلی وژن اینکروں کو نظر نہیں آتی خبروں کا جا ئزہ لے لیں تو آپ کو ہر طرف افرا تفری نظر آتی ہے گا لم گلو چ سنا ئی دیتی ہے سیا سی جماعتوں کے ایم این اے اور ایم پی اے ہسپتا لوں میں تو ڑ پھوڑ کر تے ہیں ڈاکٹر وں کے ساتھ ہا تھا پا ئی کر تے ہیں نر سنگ سٹاف کو دھمکی دیتے ہیں انتظا می افیسروں کے ساتھ الجھتے ہیں، ان کی زبا ن پر ایسے الفاظ آتے ہیں جو نقل کر نے کے قا بل نہیں ہوتے سب سے مہذب جملہ وہ ہے جو پنجا ب حکومت کی خا تون وزیر نے رمضا ن با زار میں ایک خا تون افیسر پر غصہ نکا لتے ہوئے بولی ’’تمہیں کس بے وقوف نے اسسٹنٹ کمشنر لگا یا ہے‘‘ سچی بات یہ ہے کہ پنجاب کابینہ کی وزیر نی کو اسٹنٹ کمشنر لگانے والے کمیشن کے بارے میں سب کچھ معلوم ہے ایسی با ت نہیں کہ ان کو واقعی اُس بیو قوف کی تلا ش کا شوق ہے بات یہ ہے کہ مو صو فہ کو دل کی بات زبا ن پر لا نے کا ملکہ حا صل ہے اور یہ ان کے دل کی بات ہے
قصے کہانیوں میں افغان باد شاہ محمود غزنوی کے دربار کا قصہ آتا ہے ایک دن باد شا ہ محمود غزنوی کے دربار کا قصہ آتا ہے ایک باد شاہ نے کہاکوئی ہے جو مجھے خواجہ خضر سے ملا ئے کئی دنوں کے بعد ایک شخص آیا اس نے کہا میں تمہیں خواجہ خضر سے ملا ونگا چھ مہینے کی مہلت دو اور میرے گھر میں چھ مہینے کا راشن پہنچا دو، باد شاہ نے شرط ما ن لی چھ ما ہ بعد اس نے مزید چھ مہینے کی مہلت اور چھ مہینے کے راشن کا تقا ضا کیا باد شاہ نے ما ن لیا پورا سال گذر گیا وہ شخص دربار میں حا ضر ہوا حاضر ہو کر اس نے کہا عا لی جاہ! میں غریب آدمی ہو ں اس بہا نے سے ایک سال کا راشن ملا خواجہ خضر سے ملا قات میرے بس میں نہیں
باد شاہ کو غصہ آیا اس نے ایک وزیر سے پو چھا بتاو اس کو کیا سزا دی جا ئے وزیر نے کہا عا لی جا ہ ! اس کا سر کا ٹ دیا جا ئے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کئے جا ئیں دربار میں ایک اجنبی مہمان تھا اُس نے کہا ’’عین مناسب بات ہے‘‘ باد شاہ نے دوسرے وزیر سے پوچھا بتاو کیا سزا ہونی چا ہئیے، دوسرے وزیر نے کہا عالی جا ہ! اس کو خونخوار کتوں کے آگے ڈال دیا جا ئے کتے نوچ نوچ کر اس کا چمڑا اور گوشت کھا ئینگے اذیت ناک موت مرے گا
مہمان نے کہا ’’عین مناسب بات ہے‘‘ باد شاہ نے اپنے غلا م ایاز سے پوچھا تم بتاو اس کو کیا سزا دی جا ئے ایاز نے کہا عالی جاہ! غریب کے گھر میں ایک سال کاراشن بھیجنے پر حضور کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آئی اگراس کو معاف کرو گے تو حضور کی بادشاہت پر کوئی حرف نہیں آئے گا \
مہمان بولا ’’عین مناسب بات ہے‘‘ اب باد شاہ مہمان کی طرف متوجہ ہوا مہمان سے پوچھا تم نے پہلے وزیر کی بات پر کہا عین مناسب بات ہے، دوسرے وزیر کی بات پر کہا عین مناسب بات ہے، اب ایا ز کی بات پر پھر کہا عین مناسب بات ہے اس کا کیا مطلب ہوا، مہمان نے کہا عالی جا ہ تینوں نے اپنی نسل کا پتہ دیا ہے پہلا وزیر قصائی کا بیٹا ہے اُس نے سرکاٹنے اور جسم کے ٹکڑے کرنے کا مشورہ دیا جو اُس کی ذات پر عین منا سب ہے، دوسرے وزیر کے باپ باد شاہ کے کتے پالتا تھا کتوں کو نہلا تا تھا اُس کی بات سے اس کی نسل کا پتہ لگ جا تا ہے جو عین مناسب ہے، سامنے جوجوان کھڑا ہے یہ سید زادہ ہے اہل بیت اطہار نے سرکٹا یا مگر دشمن کا بُرا نہیں چاہا اُس نے معاف کرنے کی تجویز دے کر اپنی اعلیٰ نسبی اورعالی ظرفی کا ثبوت دیا ہے جو عین منا سب ہے
باد شاہ نے ایاز کی طرف دیکھ کر کہا تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا کہ تم سید ہو ایاز نے کہا عالی جاہ مہمان نے میرا ایک راز فاش کر دیا میں بھی ان کا راز فاش کرتا ہوں یہی خواجہ خضر ہیں سرکاری ملا زمین افیسروں اور ڈاکٹروں پر غصہ اتار نے والے سیاستدا ن بھی دراصل اپنی ذات ، نسل اور باپ دادا کی میراث بتا تے ہیں وہ اپنے طرز عمل سے ہ میں یا د دلا تے ہیں کہ ان کا خا ندا نی پس منظر کیا ہے اور افرا تفری کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے مولا نا حا لی نے یہی بات کہی
فرشتے سے بہتر ہے انسان ہونا
مگر اس میں پڑ تی ہے، محنت زیادہ