Chitral Today
Latest Updates and Breaking News

ریلوے کی نجکاری

  

عالم زیب مجاہد

برصغیر پاک و ہند میں ریل کا نظام ہنری ایڈورز کی سربراہی میں 1858ء میں متعارف کرایا گیا تھا اور پہلی باقاعدہ ٹرین 13 مئی 1861ء کو کراچی سے کوٹری تک عوام کے لیے چلائی گئی تھی۔ عوام میں سفر کی یہ سہولت بہت مقبول رہی اور آج تک اپنی ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔ آزادی کے بعد پاکستان ریلوے نے مواصلات کے شعبے اور معیشت میں اہم کردار ادا کیا اور اب ایک اہم قومی ادارہ بن گیا ہے۔

پاکستان ریلوے 1960ء سے 1977ء تک سالانہ 487 ملین روپے کا منافع دینے والا ادارہ تھا جو 130000 خاندانوں کو براہ راست اور چالیس ہزار دوسرے لوگوں کو بالواسطہ روزگار مہیا کرتا تھا۔ مگر پھر وقت کی ستم ظریفی کہیے یا حکومتوں کی نالائقی، ریلوے کا ادارہ خسارے کی جانب سفر کرنے لگا۔ 2013 کے انتخابات کے بعد اس بات پر سنجیدگی سے غور کیا گیا کہ ریلوے کا کیا کرنا ہے۔ مخختضراً یہ کہ ایک نئے جوش سے، تازہ دم ہوکر اس پر کام شروع کیا گیا۔ اس محنت نے کچھ رنگ دیکھایا بھی مگر حکومتوں کے جانے سے یہ قومی ادارہ بھی ایک دم سے یتیم ہوگیا۔

تبدیلی سرکار آئی تو ایک نئی پالیسی ساتھ لے آئی۔ شیخ رشید نے 2018 میں ریلوے کی وزرات سنبھالتے ہی بہت سے اہم منصوبوں کا اعلان کر دیا تھا۔ ان کی الفاظ اس وقت تو عوام نا سمجھ سکی مگر آج ان کا میٹھا لہجہ ریلوے میں اپنا زہر گھول رہا ہے۔ وزارت لینے کے کچھ عرصہ بعد ہی انہوں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بڑی ہوشیاری کے ساتھ کہا، ’پاکستان ریلوے ، نجی سرمایہ کاروں کے لئے حاضر ہے، کوئی بھی سرمایہ کار مسافر یا مال ٹرین چلانا چاہے تو ریلوے کے ٹریک کرایہ پر حاضر ہیں۔‘ اسی پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ کا کہ سرمایہ کار ہم سے ریلوے سٹیشن بھی لے سکتے ہیں اور ریلوے کی زمینوں پر شاپنگ پلازے اور فوڈ سٹریٹ بنائیں جائیں گے۔‘ آسان الفاظ میں کہا جا سکتا ہے ٹرین سے لے کر ریلوے کی زمینوں تک نجی شعبے کے حوالے کر دیا جائے گا۔

اپنی اسی تقریر میں انہوں نے ریلوے کی نجکاری کا چٹکلہ چھوڑ دیا مگر اس وقت یہ بات زیادہ میڈیا کوریج نا حاصل کر سکی۔ ریلوے کے نام نہاد خسارے اور تباہی کو جواز بناتے ہوئے تبدیلی کے علمبردار بھی ماضی کی مکروہ نجکاری پالیسی پرعمل پیرا ہیں۔

وزارتوں کا قلمدان تبدیل ہوا تو بیانات بھی تبدیل ہو گئے۔ نئے وزیر ریولے نے آتے ہی کہہ ڈالا کہ اس ادارہ کو اب ہم نہیں چلا سکتے۔ یہ کہنا ریلوے کے ساتھ ساتھ اس ادارے کے ساتھ منسلک لاکھوں خاندانوں کی موت کا فرمان جاری کرنے کے مترادف ہے۔ امید کی کوئی کرن تو نظر نہیں آتی مگر دعا یہی ہے کہ یہ سال ریلوے ملازمین کی بھی بہتری کا سال ہو۔

You might also like

Leave a comment

error: Content is protected!!