نوشتہ دیوار

3

تحریر: پروفیسر اسرار الدین

قسط 1

اصطلا حی طور پر نو شتہ دیوار سے آ پ جو بھی مطلب سمجھیں میرا مطلب اس سے ہے ہمارے شہروں کی دیوار وں پر لکھا ئی کی جومشقیں کی جا تی ہیں۔ ان کا ذکر مطلوب ہے۔
ایک دفعہ ایک سیا ح مہمان کے ساتھ پشاور شہر کی سیر کر رہا تھا ۔ جب واپس ہوئے تو اس نے پو چھا کہ آپ لو گوں نے دیواروں پر کیا لکھا ہوا ہے۔ ایک سرے سے دوسرے تک اس نے کوئی دیوار خا لی نہیں دیکھی۔ تما م دیواریں لکھا ئی سے کا لی کی گئی تھیں۔ میں نے اسکو بتایا کہ اشتہارات ہیں کہیں پرحکیموں کے مختلف امراض کے لئے دواءوں کے اشتہارات ہین کہیں پرآپ کو کسی عامل کا اشتہار نظر آئے گا۔ جو بچھڑے محبوب کو واپس دلانے کی نوید دے رہا ہو گا۔ کہیں آپ کسی حا ذق طبیب کی طرف سے بچے پید اکرنے کی گارانٹی ملیگی۔ کہیں پر تعلیمی اداروں کے اشتہار ہیں جو آپ کے بچوں کے مستقبل شاندار بنا نے کے ضامن بنے ہوئے ہیں۔ کہیں سیاسی یا مذہبی جلسے جلوسوں کے پروگرام پر مبنی اشتہارات ہیں تاکہ ان میں شرکت کرکے آپ دین و دنیا میں سرخرو ہو سکیں۔ علی لہذا لقیاس ہماری یہ دیواریں ہمارے فیس بک کی طرح ہیں۔ ہم ان کو دیکھ کر خوش بھی ہوتے ہیں اور ہمارے معلومات میں اضا فہ ہو جاتا ہے۔ اس نے کہا’’ میں تو کہوں گا کہ آپ لوگ اپنے شہروں کے دیواروں کو کالی کرکے اپنے شہروں کے منہ پر کالک مل رہے ہیں اور اسکوبرے سے برا کر نے میں مدد دے رہے ہیں۔ ‘‘ ان کی بات سن کے میں نے حیرانگی سے پوچھا کیوں! تمہا رے ملک میں دیواروں پر اس طرح لکھا ئی نہیں ہو تی
اس نے کہا توبہ کرو ہمارے شہروں میں اگر کوئی ایسی حرکت کرے گا تو سخت جرمانہ ہوگا اور سیدھا جیل بھیجا جائے گا۔
پھر آپ اپنے اشتہا رات کا کیا کر تے ہیں
ان کے یا تو خا ص مقامات ہوتے ہیں۔ وہاں پر آپ کو ملیں گے۔ یا اخباروں اور دوسرے میڈیا کے ذریعے لو گوں کو آگا ہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی دیوار پر لکھے پہلے تو وہ ما لک دیوار خود اس کا بندو بست کر تے ہیں ،حکومت تک تو بات بعد میں پہنچ جا تی ہیں۔

میں نے مزید حیرانی سے کہا کہ ہمارے ہاں ہر کوئی اپنا حق سمجھتا ہے کہ جہاں جو لکھے جیسا لکھے اسکی مر ضی یہاں ایک دل جلے شاعر نے جب ایک صبح اپنی دیوار پرلکھائی دیکھی تو بے ساختہ اس نے کہا 
یہ میرے گھر کی دیوار ہے یا حکیم صاحب کا اشتہار ہے
اس نے اسکے بعد مو ضوع بدل کے ایک اور چھپتا سوال کیا۔

آپ شہر کے بہت سی جگہوں پر میں نے دیکھا کہ کوڑا کر کٹ کے ڈھیر کے ڈھیر پڑے ہوئے تھے۔ ان کو اٹھا نے کا کوئی بندو بست نہیں ہے مجھے ایسے لگ رہا ہے کہ 9،دس سا لوں میں آپ کا تما م شہر ان ڈھیر وں کے نیچے دفن ہو جائے گا۔ پھر لو گ پشاور شہر کو ڈھونڈ تے پھر رینگے۔

ان کی اس بات سے میں پا نی پا نی ہو گیا لیکن اپنا بھر م رکھنے کے لئے میں نے ان کو بتا یا کہ نہیں ایسے کوئی خطرے کی بات نہیں ۔ ہم سال میں پورا ایک ہفتہ ’’ہفتہ صفائی‘‘ منا تے ہیں اور شہر کی مکمل صفائی کرتے ہیں اس ہفتے ایک خا ص خصوصیت یہ ہے کہ ہمارے وزرا اور بڑے افسر صاحبان اور تما م علمائے کرام بذات خود اس پر و گرام میں حصہ لیتے ہیں۔

یہ لو گ کس طرح حصہ لیتے ہیں 
وزراء اور افسر صاحبان ریڈیو ٹیلی وژن پر تقریر کرتے ہیں اور لو گوں کو سمجھاتے ہیں کہ صفائی اچھی چیز ہے وغیرہ اور علمائے کرام صفائی نصف ایمان پر مسجدوں میں وعظ کر تے ہیں۔

 ہفتہ ختم ہو نے کے بعد کیا ہو تا ہے
پھر دوبارہ وہی سلسلہ شروع ہو جا تا ہے اور ہم آئیندہ سال کے ہفتہ صفائی کا انتظار کر تے ہیں۔ 

خوب بہت خوب کسی نے آپ کے مشہور شاعر کا ایک شعر مجھے سنا ئی تھی جو میں یا د رکھ سکا ہو ں۔ اس شاعر نے یو م اقبال کے بارے کہا تھا ۔ جو مجھے کچھ یو ں یا د ہے
ہم سال میں ایک دفعہ یو م اقبال مناتے ہیں باقی جو کر تے ہیں قوالی کر تے ہیں
جہاں جہاں آپ نے خو د یا د دلا یا ہفتہ صفا ئی کے دوران ہمارے شعراء حضرات شاعر ی بھی کر تے ہیں۔ اور ہمارے ادیب حضرات اخباروں میں لمبے لمبے مضا مین لکھتے ہیں۔

اسی طرح میں کوشش کرتا رہا کہ اس سیاح کے دل میں میرے شہر کے بارے میں منفی تاثر نے جگہ بنا ئی تھی وہ مٹ جائے، ایسا نہ ہو سکا اسکو اخر میں نہ با لائے حصار یا د تھا نہ پشاور عجا ئب گھر کے مشہور گندھا را ارٹ کے نمو نوں کو یا د کر ہا تھا ۔ نہ خیبر کے درے جیسے تاریخی شاہرا ہ سے متاثر تھا اسکے دل کو میرے شہر کی دیوار وں پر لکھائی اور جگہ جگہ کوڑا کر کٹ کے انبار وں نے دکھ دیا تھا اور وہ ما یوس ما یوس میرے شہر سے رخصت ہورہا تھا۔ یہ ٹورسٹ لو گ ہمارے مفت کے اشتہا ر ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں اپنے سیا حت کرد ہ مقا مات کے بارے بتا تے ہیں بعض ان میں سے کتا بی یا مضا مین کی صورت میں اپنے تا ثرات لکھتے رہتے ہیں جو دنیا کے مختلف مما لک میں وائرل ہو جا تے ہیں کوئی اچھی چیز ملے اسکی خو ب تعریف کرتے ہیں ۔ خراب چیزمشا ہدے میں آئے تو اسکوبھی خو ب اچھا لتے ہیں۔

3 Comments
  1. Dr Inayayullah Faizi says

    ایک چشم کشا کالم ہےجو ہمارے سماجی اور معاشرتی رویوں کا پردہ چاک کرتاہے

  2. Sher Wali Khan Aseer says

    دل کی بات لکھ ڈالی سر جی! اس سال کے اوائل میں جب میں آئرلینڈ میں تھا تو ان کے اسمبلیوں کے انتخابات منعقد ہوئے۔ ہم نے نہ چوراہوں پر جلسے دیکھے نہ کسی دیوار پر اشتہار اور نہ سمع خراش لاؤڈ سپیکر پر اعلانات۔ اُمیدواروں کے اشتہار بجلی کے کھمبوں پر آویزاں تھے۔ الیکشن کے دوسرے دن ایسے غائب ہوئے کی گویا وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ بیرون ملک صفائی کی اہمیت دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہم ایشیائی خاص کرکے جنوب ایشیا کے لوگ نصف ایمان سے ہمیشہ کیلئے محروم ہیں۔

    شیر ولی خان اسیر

  3. javed karim says

    This not only shows our lack of civic sense but the writings on walls depict our national psych, as most of them are about Hakimi dawai to enhance male potency, success in love etc.

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected!!